ایبٹ آباد (دلدار احمد ستی)سابق وزیر اعلی وگورنر اورچیف آرگنائزر عوام پاکستان پارٹی خیبر پختونخوا سردار مہتاب احمد خان نے کہا ہے کہ ملٹری کورٹ کا قیام انصاف کی نفی ہوگی ۔ پشتون تحفظ موومنٹ جرگہ کے مطالبات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔پشتون امن میں ہوگا تو پاکستان میں امن ہوگا۔ملک میں مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کے چمپئن سیاستدان ہیں، لیکن اس کے پیچھے مقتدرہ ہیں ۔جب اس کو لایا گیا وزیر قانون کو مسودہ تک کا علم نہیں تھا۔پاکستان کا آئین واضح ہے ۔جس کو اتفاق رائے سے 1973 میں بنایا گیا اور دوسری مرتبہ 18 ویں ترامیم میں اتفاق رائے پیدا ہوا ۔ہمارا آئین بالاتر ہے ۔آئین برطانیہ کا پارلیمانی سسٹم اور 1935 کا ڈھانچہ تھا۔1973 میں چاروں صوبوں کو ریاست تصور کرکے ایساڈھانچہ دیا۔آئین میں پاکستان کو آزاد عدلیہ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔آج اس کو چند افراد کی خواہش پر توڑنا خطرناک ہوگا۔مولانا فضل الرحمن موجودہ سیاسی صورتحال میں اپنی سیاسی ساکھ بحال کرکے قوم کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔ بچپن سے سنا کرتے تھے پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے جب ماضی کا جائزہ لیتے تو پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں پارلیمنٹ ،جوڈیشری اور اسٹیبلشمنٹ اور قوم نے کچھ نہیں سیکھا معیشت ،معاشرت ،تعلیم یا علاج معالجہ کی سہولیات کا معیار اور کردار پستی کی طرف ہے جو انتہائی تکلیف دہ ہے۔پاکستان اس موڑ پر جہاں ملک کی اقدار اور اس کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں ایک خصوصی بات چیت میں کیا۔
سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا پشتون تحفظ موومنٹ جرگہ میں جو مطالبات پیش ہوئے اس پر غور کرنے سے صاف نظر آتا ہے ایک بڑا خطہ ریاستی اساس کے خلاف ہے ۔آج بلوچ بھی کھلم کھلا بغاوت پر اتر آئے ہیں۔خطہ میں 35 سال سے جو افغان جنگ جاری ہے۔افغانستان تو تعمیر نو پر گامزن ہے لیکن پاکستان اس جنگ میں اب بھی پھنسا ہوا ہے ۔افغان فارن پالیسی پر پارلیمنٹ اور عوام کا کوئی کردار نہیں ہے ۔یہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔پاکستان خارجہ پالیسی کا نام لیتا ہے لیکن اس میں ہماری کوئی توقیر نہیں ہے۔فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں کہیں اور ہو رہے ہیں۔سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا ہوگا پاکستان کو توڑنا ہے یا جوڑ کے رکھنا ہے ۔فیصلے کرنے والی قوتوں سے التجا ہے وہ پاکستان کے بارے میں فکر کرنا شروع کریں ،ڈنڈے کے زور پر فتح نہیں ہوگی ۔پارلیمنٹ وہ ہو جس کو عوام منتخب کریں ناکہ وہ ہو جس کو چھین کر کسی اور کو مسلط کیا جائے یہ بڑی خطرناک صورتحال ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے پاکستان کو محبت سے قائم رکھنا ہے۔بلوچستان میں فوج کشی 1948 میں شروع ہوئی۔بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جس نے قائد اعظم کی درخواست پر پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی ۔بلوچستان اور پشتون کی اب پاکستان سے وہ محبت نہیں جس کی توقع کر رہے ہیں ۔پختون امن میں ہوگا توپاکستان امن میں ہوگا ۔بلوچستان اور پشتون کو ڈنڈے کے طور پر نہیں رکھ سکتے ۔اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان جمہوری ملک ہے ۔اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری آئینی حدود میں رہیں پارلیمنٹ اپنے قانون پر عمل کریں۔ریاست کے ستون اقتدار کو نہ چھینیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ملک میں آزاد منصفانہ الیکشن ہوں جو بھی جیت جائے تو اس کو اقتدار سپرد کریں ۔پاکستان کو اچھا بنا سکتے ہیں پہلے خیبر سے کراچی تک لوگ آزادی سے سفر کرتے تھے ان کو کوئی لوٹنے والا نہیں تھا۔ملک میں فسطائیت ریاستوں کو توڑتی ہے۔ روس کی مثال سب کے سامنے ہیں ۔سوڈان کو دیکھ لیں سیکورٹی کا انچارج ملک کے خلاف کھڑا ہوا ۔اقتدار کی جنگ بڑی سازش ہے۔ہماری خارجہ پالیسی نہیں ہے ۔ملک کی قسمت کے فیصلے ظالمانہ بھونڈے طریقہ سے ہو رہے ہیں۔ کیسے ممکن ہے چند لاکھ لوگ کہیں یہ ملک ہمارا ہے۔باقی کروڑوں لوگوں کو نہ قبول کیا جائے ۔سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا آئینی ترامیم میں مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے مسودہ کو مسترد کر دیا جو نئی آئینی عدالت کے قیام کے حوالہ سے تھا۔کھیل کو مولانا فضل الرحمن نے اپنے ہاتھ میں کرلیا ہے ان کے لئے سیاسی ساکھ بنانے کا وقت ہے۔قوم کے جذبات کی ترجمانی کریں ۔قوم اس کو یاد رکھے گی ۔آئینی ترمیم کے زریعے سپریم کورٹ کا بنچ بنا دیں جب بھی ضرورت ہوتو بنچ اس کو دیکھ لے۔نئی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی طاقت ختم ہوگی اس سے کون خوش ہوگا۔ماضی میں ہر مسلم حکمرانوں نے عدلیہ کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ملڑی کورٹ میں سویلین کا ٹرائل انصاف کی نفی ہے کسی سیاستدان کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے کریں گے تو کل خود بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔آئینی ترامیم کے زریعے صوبہ کی تبدیلی کا نعرہ پرانا ہوچکا ہے۔علاقائی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے۔سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا 8 فروری کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ارکان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ دی گئیں لیکن ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ایک شخص جو جیل میں بیٹھا ہے اس نے تمام جماعتوں اور عدلیہ کو آگے لگا لیا ہے ۔طاقت سے فیصلے نہیں کئے جا سکتے ۔ملک کو امن کی ضرورت ہے۔ورنہ معیشت کو استحکام نہیں ملے گا۔ملک میں ڈھائی کروڑ بچے سکول سے بائر ہیں 20 سال بعد یہ ملک میں تباہی پھیلا دیں گے۔سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا نئی سیاسی جماعت کا قیام اس لئے عمل میں لایا کہ ماضی کی سیاسی جماعتوں سے لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ہماری جماعت نے اصلاحات کا پلان تیار کیا ہے ۔پاکستان کے ہر شعبہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔آئی ایم ایف کی غلامی ملک کے حالات کی وجہ سے ہے ۔ہمارا جذبہ ہے ملک کو اس بحران سے نکال سکیں۔کسی کی گود میں بیٹھ کر اقتدار میں آنے کی خواہش نہیں۔عوام پاکستان پارٹی انصاف کی بنیادوں پر کام کرے گی۔تعلیم یافتہ افراد شامل ہو رہے ہیں مستقبل بڑا روشن ہے ۔شنگھائی کانفرنس ریجنل تعاون کا پلیٹ فارم ہے اس سے پاکستان کے خارجی ، داخلی سماجی مسائل پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔جب تک پاکستان میں امن پیدا نہیں ہوگا ۔پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لئے روایتی سیاست سے بچنا ہوگا۔ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔