Skip to content

ہر طرف پھیلے کچرے کا پائیدار حل

شیئر

شیئر

اختر خان رجوعیہ ایبٹ آباد

جب اپنے خوبصورت شہر ایبٹ آباد کو گندی سے لت پت دیکھتا ہوں تو بہت دکھ اور کوفت ہوتی ہے

بلکہ پاکستان کا تقریباً ہر شہر ،دیہات اور پکنک سپاٹ گندگی سے لت پت نظر آتا ہے ۔ گورنمنٹ کی طرف سے متعین عملہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ناکافی ہے اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ موجود عملہ اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے پوری بھی نہیں کر پا رہا۔
میرے نزدیک اسکا بہترین اور پائیدار حل یہی ہے کہ ہر قسم کے کچرے کی قیمت مقرر کی جائے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ لوہے اور پلاسٹک کی اشیاء سڑک گلی یا پارکوں میں پڑی نظر نہیں آتی کیوںکہ یہ اشیاء قابل فروخت ہیں ایسی اشیاء کو مزدور طبقہ نالیوں سے بھی ڈھونڈ کر لے جاتا ہے۔ لوہے گتہ اور پلاسٹک کی طرح باقی کچرے اور ردی اشیاء کی بھی اگر حکومتی سطح پر قیمتیں مقرر کی جائیں اور اسکے لیے تھوڑا بہت بجٹ مختض کر دیا جائۓ ۔
سال نہیں بلکہ دو مہینوں میں آپ کے شہر صاف ستہرے ہو جائیں گے
مثال کے طور پر اگر شاپر کا کچرہ30روپے کلو۔ نالی کا کیچڑ 20روپے کلو پھل فروٹ کے چھلکے 20روپے کاغذ گتا کی ردی 30روپے کلو۔ ریت بجری دھول مٹی 10روپے کلو یا جیسے حکومتی کمیٹی مناسب سمجھے قیمتیں مقرر کرے۔
ہر شہر میں 5 ،10 یا آبادی کے لحاظ کچرا collection پوائنٹس بنائیں جائیں۔ ہر پوائنٹ پر ایک cashier اور دو سنیٹری ورکرز کی ڈیوٹی لگائی جائے۔ جن کے پاس ایک digital scale یعنی تراوز ہو۔ غریب کچرہ چننے والے مزدور اپنا اپنا کچرے لیکر اپنے قریب ترین پوائنٹ پر آئیں مختض ریٹ کے مطابق انکو کچرے کی قیمت ادا کی جاۓ تو شروع کے مہینوں میں بجٹ تھوڑا زیادہ خرچ ہوگا لیکن آہستہ آہستہ بجٹ نارمل ہوجائے گا۔ کیونکہ ایک وقت آے گا میں دعوے سے کہتا ہوں کہ لوگوں کے گھروں سے کچرا اٹھانے والے مزدور ایڈوانس پیسے دے کر کچرہ بک کر لیا کریں گے۔ ہمارے شہر دیہات صفائی سے شیشہ کی طرح چمکنا شروع کر دیں گے۔
موجودہ سینٹیشن نظام کے لیے بہت بڑا بجٹ خرچ ہورہا ہے۔ تنخواہیں میڈیکل آفس بلڈنگ بجلی اکاوٴنٹ ایڈمن سٹاف اور گاڑیوں کے اخراجات وغیرہ وغیرہ ۔
اگر اس پر عمل کیا جائے تو لاکھوں بے روزگار افراد کو زریعہ معاش مل جائے گا۔ غریبوں کو کمر توڑ مہنگائ سے ریلیف ملے گا ۔ جو سٹاف فارغ یا ریٹائرڈ ہوں گے وہ کچرے جمع کرنے کا کام آسانی سے کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ انکے پاس تجربہ ہے ۔
دیکھنے میں آیا کہ ابھی بھی بہت زیادہ عوام اس کام سے وابستہ ہے۔ اگر کبھی صبح صبح نماز کے بعد شہر کی سڑکوں اور گلی محلوں میں واک کرنے کا اتفاق ہوا ہو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہزاروں افراد بچے جوان بزرگ عورتیں کچرہ دانوں سے قابل فروخت اشیاء ڈھونڈنے میں مصروف نظر آئیں گے۔ سفید پوش لوگ جو کسی سے نہ بھیک مانگ سکتے ہیں نہ چوری کر سکتے ہیں۔ ماسک پہن کر صبح صبح اپنی دیہاڑی بنا لیں گے۔ گورنمنٹ اس کچرے کو ریسائیکل کرکے اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اس منصوبہ سے شہروں میں۔ سیورج کا نظام۔ پانی کی الودگی ڈینگی جیسی کئی بیماریوں سے نجات مل جائے گی۔
بظاہر یہ کام اچھا نہیں ہے لیکن متبادل بھی تو کچھ نہیں ہے۔ کم از کم دو وقت کی روٹی تو حاصل کر سکیں گے۔ چوری چکاری اور بھیک جیسی لعنت سے بچے رہے گئے ہیں۔
۔ مارکیٹ میں نوکریاں اتنی ہے نہیں جتنے ہمارا تعلیمی سسٹم نوجوان گریجویٹ پیدا کر رہا ہے۔ اس سے بہتر ہے ہنر اور skill سکھانے والے سکول کھولے جائیں کم از کم دس سال بعد بچے کے پاس کچھ نہ کچھ ہنر تو ہو گا۔ بیرون ملک میٹرک ایف اے پاس کی بجائے skilled ورکرز کی بہت مانگ ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں