Skip to content

خریداری سکینڈل ,ایوب میڈیکل کمپلیکس میں بحران شدت اختیار کر گیا۔بورڈ ممبران دو گروپوں میں تقسیم

شیئر

شیئر

بورڈ چئیرمین کی سیٹ حاصل کرنے کی ہوس اور اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لٸیے دونوں گروپس آمنے سامنے , ایک گروپ کی طرف سے تین ممبران جن میں فواد صالح ایڈوکیٹ،اسد خان جدون اور جعفر شاہ شامل پر بورڈ ایس او پیز کو روندنے کر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے الزامات۔۔
چئیرمین مشتاق جدون جنہوں نے قلیل عرصے میں ریکارڈ کام کروائے اور اپنی دیانت داری اور بے داغ شہرت کے حامل بیوروکریٹ ہیں نے زیر تکمیل پراجیکٹوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایم آر آٸی لتھو ٹرپسی،انجیو گرافی سمیت اربوں کے گھپلوں پر نہ صرف تحقیقات کروائیں بلکہ کارواٸی کا آغاز کیا ,شروع ہی سے ان تین ممبران کے نشانے پر ہیں اور یہی انکا جرم ٹھہرا۔
نگران حکومت میں ارشد شاہ وزیر اعلی کی طرف سے غیر قانونی طور پر تعینات ان ممبران نے شروع ہی سے چئیرمین کو ناکام بنانے کیلئے محاذ گرم کیا اور اپنا چئیرمین لگوانے کیلئے مشتاق جدون پر نگران وزیر اعلی ارشد شاہ سے دباو ڈلواتے رہے جسکی وجہ سے مشتاق جدون کو استعفی دینا پڑا۔
یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے یہاں تک کہ یہی ممبران انکے ساتھ میٹنگ میں بیٹھنا گوارا نہیں کرتے تھے اب انہیں ادارہ یاد آ گیا۔
مذکورہ ممبران نگران دور میں استعفی پر قانونی نوٹیفیکیشن حاصل نہ کر سکے لیکن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد یہی ممبران نئ حکومت کے مختلف ممبران اسمبلی اور اثرو رسوخ والے افراد کے ذریعے چئیرمین کا استعفی منظور کروانے میں کامیاب رہے۔
میدان خالی دیکھ کر نئے چئیرمین کی آمد کا انتظار کٸیے بغیر تینوں ممبران نے اپنا گروپ بنا کر الگ غیر قانونی میٹنگ کر ڈالی جبکہ اسی حرکت پر ایک بار انکو حکومت کی جانب سے شدید تنبیہ کی گئ تھی
قانون کے مطابق کسی بھی بورڈ میٹنگ کیلئے چئیرمین اور کم سے کم چار ممبران کا ہونا ضروری ہے جبکہ یہاں اب تک نہ حکومت نے چئیرمین بنایا ہے اور صرف تین ممبران تھے باقی تین ممبران ایاز خان جدون ڈاکٹر آفتاب ربانی اور جاوید ترک نے اس غیر قانونی میٹنگ سے گریز کیا۔
حال ہی میں محکمہ صحت کے مراسلے میں دو ٹوک الفاظ میں بتلایا گیا تھا کہ چئیرمین کے بغیر کوٸی بھی میٹنگ معنی نہیں رکھتی لیکن قانون اور حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے تینوں ممبران یعنی فواد صالح،اسد جدون اور جعفر شاہ نے ایس او پیز سے ہٹ کر غیر قانونی میٹنگ کی جسکا نہ تو کورم پورا تھا اور نہ ہی مذکورہ ممبران میٹنگ بلانے کے مجاز تھے ۔
اسکے جواب میں دوسرے گروپ کے ممبران جن میں آفتاب ربانی ایاز جدون اور جاوید ترک شامل ہیں انہوں نے الگ میٹنگ کر کے پہلی میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر آفتاب ربانی اور ایاز جدون بورڈ آف گورنرز کی سب سے اہم کمیٹی ایڈمینیسٹریشن اینڈ مینیجمنٹ کے رکن بھی ہیں جو انتظامی امور کی نگران کمیٹی ہے
ایاز جدون،ڈاکٹر آفتاب ربانی اور جاوید ترک کا موقف تھا کہ چئیرمین کے بغیر تین ممبران کو الگ سے میٹنگ کرنے اور انتظامی معاملات میں مداخلت کا کوٸی قانونی جواز نہیں اور بورڈ کی ذمہ دار کمیٹی ہونے کے ناطے وہ کسی ایسی میٹنگ کا حصہ نہیں بن سکتے البتہ وہ مینیجمنٹ کونسل یعنی ہسپتال ڈائریکٹر،ڈین اور میڈیکل ڈائریکٹر سمیت تمام ملازمین کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اپنا کام تندہی سے انجام دیں اور کسی بھی افواہ پر کان نہ دھریں۔ نیز چونکہ تین ممبران کی الگ میٹنگ غیر قانونی ہے لہذا اسکا کوٸی بھی فیصلہ انتظامیہ اور ملازمین کیلئے ماننا لازمی نہیں۔
مینیجمنٹ کونسل اور ایڈمینیسٹریشن اینڈ مینیجمنٹ کمیٹی کے ممبران بشمول جاوید ترک ڈاکٹر آفتاب ربانی اور ایاز خان نے منگل کے روز ہونے والی دیگر ممبران کی میٹنگ کے تمام مندرجات کو مسترد کر دیا ہے اور حکومت کو بھی اسکی تفصیلات بھجوا دی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں گروپس تین تین ممبران پر مشتمل ہیں تو وہ قانوی طور پر کیسے میٹنگ بلا سکتے ہیں؟اگر ایک گروپ کی میٹنگ غیر قانونی ہے تو دوسرا گروپ کیسے قانونی ہو سکتا ہے؟
دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ منگل کی غیر قانونی میٹنگ میں جو فیصلے کئے گئے اور الزامات عائد کئے گئے انکی کوٸی حیثیت نہیں۔
ایک گروپ کی طرف سے لگاٸے گٸیے الزامات کے مطابق جن 93 کروڑ کی خریداریوں کا ذکر ہے اس کی اکثریتی رقم ہسپتال کے روزمرہ اخراجات جس میں ادویات،آپریشن تھیٹر میں استعمال ہونے والی اشیاء،لیبارٹری کی ضروریات اور اسی طرح سے پہلے سے چلنے والے پراجیکٹ یا معاہدات کی بقایا ادائیگیاں ہیں جو مکمل ذمہ داری اور قانونی طریقہ کار کے تحت ہوئیں اور یہ پچھلے سالوں کی نسبت کبھی کم ہیں۔
ان تمام ادائیگیوں کی مکمل تفصیلات اور گزشتہ سالوں کے ساتھ موازنہ کی مکمل تفصیلات میڈیا اور تمام ذمہ داروں کے ساتھ شئیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ساتھ یہ باور کرایا گیا کہ یہ عوام کی امانت ہے اور ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اسکی تفصیلات طلب کر سکتا ہے۔
محض الزامات کی بنیاد پر کیچڑ اچھالنا صرف مذموم مقاصد کی تکمیل ہے جو کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔
اگر معزز ممبران کو کوٸی شکایات ہے تو چئیرمین کی تعیناتی کے بعد بورڈ کی افیشل میٹنگ کے ذریعے وہ کسی بھی تفصیلات اور انکوائری کا حق رکھتے ہیں لیکن چور دروازہ سے چئیرمین کے بغیر خود سے تین ممبران کا اکٹھ اس بات کا قانونی مجاز نہیں کہ وہ انتظامی امور میں مداخلت کرے۔
مذکورہ ممبران مسلسل ہسپتال اور کالج کے انتظامی افسران اور سربراہان کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں جسکی وجہ سے ملازمین کوفت کا شکار ہیں۔
تینوں ممبران چاہتے ہیں کہ ہسپتال ڈائریکٹر پر دباو بڑھا کر انکو ساتھ شامل کروائیں اور من پسند افراد کو ٹھیکے دینے اپنے لوگ بھرتی کرانے ترقیاں دلوانے سمیت دیگر مقاصد حاصل کریں۔ ایک ممبر اپنی بیگم جو گائنی کی پروفیسر ہیں کی ایماء پر ایک اور گائنی وارڈ بنوانا چاہتے ہیں جسکی وجہ سے وہ موجودہ میڈیکل ڈائریکٹر پر بھی برہم ہیں کیونکہ میڈیکل ڈائریکٹر کی اہلیہ گائنی کی چئر پرسن بھی ہیں۔
یہی ممبر جن جن کی انکی اہلیہ جو پروفیسر ہیں ایک ٹرینی میڈیکل آفیسر کے سپروائزر کی تبدیلی پر بھی نالاں ہیں کیونکہ وہ ٹرینی میڈیکل آفیسر مزید انکے پاس وارڈ میں نہیں رہنا چاہتی تھیں۔
مذکورہ ممبر صاحب اپنی مرضی کے کام نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال ڈائریکٹر کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔
تینوں ممبران ہسپتال کے آفیشل دستاویزات بھی غیر قانونی طور پر بغیر اجازت دھڑا دھڑ شئیر کر رہے جسکا طریقہ کار واضح ہے۔
اطلاعات کے مطابق دو گروپوں کی جنگ میں سیکرٹری بورڈ بھی شامل جنکو آفیشل ریکارڈ لیک کرنے اور غیر قانونی معاونت پر معطل کر دیا گیا ہے۔
ایک گروپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران جس 93 کروڑ کی ادائیگی کا الزام لگایا جا رہا یہ صرف وہ ادائیگیاں ہیں جو سالانہ بجٹ اور طریقہ کار کے مطابق ہیں اور اس میں کوٸی نئے پراجیکٹ شامل نہیں۔
ہسپتال پہلے سے ادویات،سرجیکل آلات سامان،آکسیجن اور دیگر ضروری اشیاء کے ساتھ ساتھ کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے حصول اور پہلے سے زیر تکمیل پراجیکٹس جس میں ڈینٹسٹری فلٹر کلینک،سی ٹی بلڈنگ، انتظار گاہوں سمیت دیگر زیر التوا امور شامل تھے کی ادائیگیوں کا پابند ہے اور اسکے لئے تمام ضوابط کا خیال رکھا گیا ہے اور صرف وہ ادائیگیاں کی گئیں جنکی اجازت حکومت نے دی اور جسکے بغیر ہسپتال کا چلنا ممکن نہیں تھا ورنہ مریضوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
اسکے لئے پہلے سے طریقہ کار موجود ہے اور ہر ادائیگی کیلئے بورڈ ممبران کی منظوری ضروری نہیں۔جبکہ دوسرے گروپ کا الزام ہے کہ ایک سال میں تمام تر خریداری غیرقانونی طور پر کی گٸی اور حکومت کی طرف سے پابندی اور بورڈ کی اجازت کے بغیر یہ خریداری کی گٸی جو کہ خلاف ضابطہ اور غیر قانونی ہے۔
ہسپتال کے تمام ملازمین میں بورڈ ممبران کی گروپنگ اور بورڈ ممبران کے غیر قانونی کاموں اور بے جا مداخلت پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے اور حکومت سے مطالبہ کی گیا ہے کہ مذکورہ ممبران کو فوری برطرف کر کے انکے خلاف قانونی کاروٸی کی جائے جو مسلسل بدنامی کا سبب بن رہے بصورت دیگر ایک بار پھر احتجاج کا خدشہ موجود ہے۔یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ بورڈ ممبران غیر سنجیدہ ہیں اور ہسپتال کے معاملات کو حل کرنے کے بجاٸے میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کینچنے اور صرف رخنہ ڈالنے کے ماہر ہیں تاکہ روزمرہ امور ٹھپ ہو جائیں اس سلسلے میں عوامی حلقوں نے حکومت سے سارے معاملات کا نوٹس لیکر متنازعہ معاملے کو قانون کے مطابق حل کرنے اور بے ضابطگیوں اور اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔۔۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں