وزیر خزانہ خیبر پختونخوا آفتاب عالم نے بجٹ تقریر کے دوران کہا کہ کل محصولات 1754 ارب روپے اور کل اخراجات 1654 ارب روپے ہیں، بجٹ 100 ارب روپے سرپلس ہے۔آفتاب عالم نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ضم اضلاع کا سالانہ حصہ 262 ارب روپے بنتا ہے، صوبے کو 262 میں سے صرف 123 ارب روپے ملے ہیں، خیبر پختونخوا کو 139 ارب روپے کے سالانہ خسارے کا سامنا ہے، ہر سال صوبہ کو واجب الادا رقم اپنے حصہ کے مقابلہ میں کم ملتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختو نخوا واحد صوبہ ہے جس نے حقیقی طور پر اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیئے۔مقامی حکومتوں کے لیئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں 20 فیصد فنڈز مختص کیئے، صوبائی مالیاتی کمیشن اور مقامی حکومتوں کے کمیشن قائم کیئے گئے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاقی حکومت طےشدہ فارمولے کے تحت صوبہ کو رقوم کی ادائیگی کی پابند ہے، ہر سال صوبہ کو واجب الادا رقم اپنے حصہ کے مقابلہ میں کم ملتی ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے واجبات کی بروقت ادائیگی نہ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں صوبے کے بقایاجات 78 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں، سی سی آئی سے منظور شدہ اے جی این قاضی فارمولہ کے تحت 30 جون 1800 ارب روپے زیادہ کے بقایاجات وفاق کے ذمہ واجب الادا ہیں۔
پراپرٹی ٹیکس کی مد میں بڑا ریلیف دیا جا رہا ہے۔آفتاب عالم نے کہا کہ ہوٹلوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 6 فیصد کر دی گئی ہے، ریسٹورنٹ انوائس منیجمنٹ سسٹم کا استعمال تمام ہوٹلوں کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے ، شادی ہالوں کے لیے فکسڈ سیلز ٹیکس ریٹ متعارف کرنے کی تجویز ہے، پراپرٹی ٹیکس کی مد میں بڑا ریلیف دیا جا رہا ہے، کارخانوں پر پراپرٹی ٹیکس 2.5 روپے فی مربع فٹ ہےجو 10 ہزار 600 روپے فی کنال بنتا ہے، اس ٹیکس کم کو کم کر کے10 ہزار روپے فی کنال کرنے کی تجویز ہے، ریونیو موبیلائزیشن پلان کے تحت 93.50 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔وزیر خزانہ خیبر پختونخوا نے کہا کہ آمدن بڑھانے کیلئےٹیکس نیٹ بڑھانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، ٹیکس کی مد میں کئی اصلاحاتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کمرشل پراپرٹی پر ٹیکس ماہانہ کرایہ کا 16 فیصد سےکم کرکے 10 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، شعبہ صحت سے منسلک کاروباروں پر ٹیکس 16 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کیا جا رہا ہے، بھاری وفاقی ٹیکس کے باعث لوگ جائیداد کی منتقلی کیلئےاسٹامپ پیپر استعمال کرتے ہیں، جائیداد منتقلی پر صوبائی ٹیکسز کو 6.5 فیصد سے کم کرکے 3.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، عوام کو جائیداد کی منتقلی پر 3 فیصد ٹیکس ریلیف ملے گا، بلکہ اسٹامپ پیپر پر خرید و فروخت کے نتیجے میں پیش آنے والی قانونی مشکلات سے بھی چھٹکارا ملے گا، معدنیات، سیاحت، ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ، خوراک، صنعت و تجارت، محنت میں محصولات بڑھانے کیلئے اقدامات کیے ہیں، محکمہ موسمیاتی تبدیلی، جنگلات و جنگلی حیات اور محکمہ زراعت میں بھی محصولات بڑھانے کیلئے اقدامات کیے ہیں۔80 فیصد تمباکو خیبرپختونخوا میں پیدا ہوتا ہے
آفتاب عالم نے کہا کہ پورے ملک کا تقریباً 80 فیصد تمباکو خیبرپختونخوا میں پیدا ہوتا ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق نے تمباکو سے متعلق معاملات کو اپنے پاس رکھا ہے، تمباکو کی آمدن صوبہ کی بجائے وفاق کو جا رہی ہے، جو صوبے کا حق ہے، آمدن بڑھانے کیلئے ٹوبیکو ڈیویلپمنٹ سیس میں اضافہ کرنے کی تجویز ہے، تمباکو پر پراونشل ایکسائز ڈیوٹی لگانےکا بل جلد ہی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، یہ ٹیکس کسانوں کی بجائے ٹو بیکو کمپنیز پر لاگو ہوگا۔
ماہانہ اجرت کو 32 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار کرنے کی سفارش کی گئی ھے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے، ماہانہ پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے، کم از کم ماہانہ اجرت کو 32 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔آفتاب عالم نے کہا کہ بیرونی امداد کے قرضے 122 ارب 75 کروڑ روپے ہیں، بیرونی امداد و گرانٹس 7 ارب 83 کڑور روپے ہیں۔جنگلات کے شعبہ کیلئے 14 ارب روپے مختص کیئے گئے ھیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگلات کے شعبہ کیلئے موجودہ سال 14 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جنگلات کے اخراجات گذشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہیں، جنگلات کے شعبے میں گرین کے پی پالیسی کے تحت بلین ٹری پلس کا منصوبہ شروع کیا جارہا ہے، نیشنل پارک کی حد بندی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
تعلیم کیلئے کل 362 ارب 68 کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم نے کہا کہ تعلیم کےلیئے کل 362 ارب 68 کروڑ روپے مختص ہیں، تعلیم کے اخراجات گذشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہیں، اعلی تعلیم کیلئے 35 ارب 82 کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں، 30 ڈگری کالجز کرائے کی عمارتوں میں قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ ابتدائی و ثانونی تعلیم کیلئے 326 ارب 86 کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں، تعمیر شدہ کرائے کی عمارتوں میں 350 زیادہ اسکولز شروع کیئے جا رہے ہیں۔
امن و امان کی بہتری کیلئے کل 140 ارب 62 کروڑ روپے مختص کیئے گئے، امن و امان کے اخراجات گذشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہیں، داخلہ امور کے شعبے میں پی ای ایچ ایل 911 کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی ٹیکس محصولات 902 ارب51 کروڑ روپے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے قابل تقسیم محاصل کا 1 فیصد 108 ارب 44 کروڑ روپے ہے، تیل و گیس کی رائیلٹیز اور سرچارج کی مد میں براہ راست منتقلی 42 ارب96 کروڑ روپے۔آفتاب عالم نے کہا کہ ونڈ فال لیوی آن آئل 46 ارب 83 کروڑ روپے ہے، پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں محصولات ’موجودہ سال‘ 33 ارب 10 کروڑ روپے ہیں، پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں محصولات ’بقایاجات‘ 78 ارب21 کروڑ روپے ہے، مجموعی طور پر محصولات 1212 ارب 40 لاکھ روپے ہیں۔
صحت کے شعبے کیلئے 232 ارب 80 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں، صحت کے اخراجات گذشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہیں، کے پی میں ترقیاتی بجٹ کے تحت ایئر ایمبولنس سروس کا آغاز کیا جا رہا ہے، جنوبی اضلاع کیلئے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سٹیلائٹ مرکز کا قیام عمل میں لائے جائے گا، نجی شعبہ کی شراکت سے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کا قیام بھی ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہیں۔ادویات کی خریداری کیلئے 10 ارب 97 کروڑ روپے مختص کیے گئے، صحت کارڈ پلس کا کل بجٹ 28 ارب روپے بندوبستی اضلاع اور ضم اضلاع کیلئے 9 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہا کہ سماجی بہبود کیلئے 8 ارب 11 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، سماجی بہبود کے اخراجات گذشتہ سال کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ ہیں، ضم اضلاع کیلئے پناہ گاہوں کے بجٹ کو 30 کروڑ روپے سے بڑھا کر 60 کروڑ کردیا گیا۔