نوجوان صحافیوں، میڈیا طالب علموں کو چاہیے کہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم سے خود کو ہم آہنگ کریں۔ کتب بینی کو عادت بنائیں۔ پاکستان میں میڈیا پر بندشیں ضرور ہیں لیکن مکمل بلیک آؤٹ بھی نہیں۔ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ فیڈرل اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں گیسٹ لیکچر دیتے ہوئے ملک کے معروف صحافی اعزاز سید کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں پروپیگنڈہ مشیری کافی تیز ہے۔ ریاست اور سیاسی جماعتیں اکثر اوقات جھوٹ کی تشہیر کرتی ہیں۔ تاہم میڈیا کمیونیکیشن کے طالب علموں کو چاہیے کہ کسی افواہ یا پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔ خود کو سچ تک پہچنے کی مہارت پیدا کریں۔ حقائق کو پرکھنے کے قابل بنایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ خاص طور پر سیاسی تاریخ سے آگاہی ہو۔ حالات حاضرہ سے با خبر ہوں۔ کتاب، اخبارات پڑھنا معمول بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر میڈیا کی صنعت سکڑ رہی ہے۔ لیکن خبر رکھنے والے میڈیا پروفیشنلز یوٹیوب، ٹویٹر سمیت ڈیجیٹل میڈیا پہ اچھی سرگرمی دکھا سکتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے پروپیگنڈہ اور سچ میں فرق سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اعزاز سید کا مزید کہنا تھا کہ نینشل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے قیام پہ صحافیوں کو تحفظات ہیں۔ ہتک عزت کا قانون جلد بازی میں پاس کیا گیا تھا۔ اس میں بھی صحافیوں کو مشکلات ہیں۔ آزادی اظہار ملک میں اس وقت ایک مسئلہ ہے لیکن ناپید نہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں صحافت پر بندشیں تھیں۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں یکسو تھیں اس لیے زیادہ شور نہیں اٹھا۔ موجودہ حکومت بھی آزادی اظہار کے حوالے سے اچھے اقدامات نہیں کر رہی۔ آنے والے دنوں میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم ہوتے نہیں دیکھ رہا۔ تاہم میڈیا اداروں اور پروفیشنل صحافیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ صرف حقائق سامنے رکھے جائیں۔ جو لوگ صحافی کے روپ میں سیاسی جماعتوں کے لیے کام کرتے ہیں وہ میڈیا پروفیشنلز نہیں۔ ان کو سیاسی کارکن ہی سمجھا جائے۔ اعزاز سید نے سٹوڈنٹس کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سکندر زرین نے نظامت کرتے ہوئے مہمان کا شکریہ ادا کیا۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر شیر جونی نے کتاب کا تحفہ پیش کیا۔