Skip to content

ہزارہ ڈویژن: صوبہ اسلام آباد کا قدرتی اور منطقی حصہ

شیئر

شیئر

تحریر: راجہ دانش تاج

پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں سے ایک اور آئینی ترمیم کی بازگشت سننے کو مل رہی ہے۔ چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم کے بعد اب اٹھائیسویں آئینی ترمیم پر سوچ بچار اور مشاورت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مجوزہ اٹھائیسویں آئینی ترمیم میں این ایف سی ایوارڈز اور مربوط بلدیاتی نظام جیسے اہم مباحث کے ساتھ ساتھ مزید صوبے بنانے کا موضوع بھی زیر بحث ہے۔

ہر سمجھدار پاکستانی اس بات پر قائل ہے کہ نئے صوبوں کا قیام ایک مضبوط وفاق کی علامت ہے۔ جتنے زیادہ اور چھوٹے انتظامی یونٹس ہوں گے، گورننس اتنی ہی آسان اور مؤثر ہوگی۔ مگر پاکستان میں نئے صوبوں کی بحث ہمیشہ یا تو سیاست کی نظر ہو جاتی ہے یا پھر علاقائیت اور لسانیت اسے گھیر لیتی ہیں ۔ اس لفظی جنگ میں ملکی مفاد ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے، اسی لیے یہ بحث کبھی کامیاب نہیں ہو سکی اور قوم نے اب تک کوئی نیا صوبہ بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی مباحث میں سندھ کا کراچی صوبہ، بلوچستان کا گوادر اور پشتون صوبہ، پنجاب میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی صوبے کے ساتھ ساتھ پوٹھوہار صوبہ اور خیبر پختونخواہ میں صوبہ ہزارہ کے مطالبات اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ اگر کوئی حکومت ان تمام مطالبات کو یکمشت تسلیم کر لے تو پاکستان کے تنظیمی نقشے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت بھی بدلنا شروع ہو جائے گی۔
مگر بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ جس بھی سیاسی پارٹی کی حکومت جس صوبہ میں ہوتی ہے وہ اپنے صوبے میں مزید صوبوں کے قیام کی مخالفت کر رہی ہوتی ہے۔ انسانی فطرت بھی شاید یہی ہے کہ کون اپنے زیر اثر ایک بڑے علاقے کی حکمرانی کو چھوڑ کر اس ہی علاقے کے ایک ٹکڑے کا حکمران بننا چاہے گا۔

اس بار نئے صوبوں کے قیام کی بحث اقتدار کے ایوانوں سے ہی سننے کو مل رہی ہے۔ اٹھائیسویں آئینی ترمیم میں سب سے مضبوط اور سنجیدہ بحث صوبہ اسلام آباد کی ہے۔ صوبہ اسلام آباد کے قیام کے حوالے سے حالیہ بحث مختلف وفاقی وزراء کے بیانات کی صورت میں بھی جاری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ضلع راولپنڈی اور مری کے علاقے کو مجوزہ صوبہ اسلام آباد میں شامل کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ نتھیا گلی کا علاقہ، جو بنیادی طور پر خیبر پختونخواہ کا حصہ ہے، اسے بھی صوبہ اسلام آباد میں ضم کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

ایسے میں، ہزارہ ڈویژن کے باشندوں کی حیثیت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر نئے صوبے کی تشکیل واقعی سنجیدگی سے جاری ہے تو ہزارہ ڈویژن کو بھی صوبہ اسلام آباد کا حصہ بنایا جائے۔ اگر پورا ہزارہ ڈویژن شامل نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم اس کے تین بڑے اضلاع ہریپور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کو نئے صوبے میں شامل کیا جائے۔

ضلع ہریپور، جو اسلام آباد کے ساتھ بڑی حد تک سرحدیں جوڑتا ہے، انتظامی طور پر بھی اسلام آباد سے قریبی روابط رکھتا ہے۔ اس ضلع کا بڑا حصہ عملی طور پر کبھی بھی اسلام آباد اور سی ڈی اے کے انتظامی ڈھانچے کا حصہ بننے کے لیے تیار رہا ہے۔ ہریپور صوبہ اسلام آباد کے لیے نہایت موزوں اور پرکشش حیثیت رکھتا ہے۔ تربیلا ڈیم، جو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے، اسی ضلع میں واقع ہے اور یہ ایک بہترین سیاحتی مقام بھی ہے۔ اسی طرح خان پور ڈیم خاص طور پر اسلام آباد کے باسیوں کی سیاحتی توجہ کا مرکز ہے۔ مزید یہ کہ اگر ہتار انڈسٹریل اسٹیٹ کو صوبہ اسلام آباد میں شامل کر دیا جائے تو اسلام آباد معاشی اور صنعتی اعتبار سے مضبوط ہو جائے گا۔

ضلع ایبٹ آباد کے نتھیا گلی اور ٹھنڈیانی کے علاقے اپنی دلکشی، حسین مناظر اور خوشگوار موسم کی وجہ سے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ شملہ پہاڑی جیسے مقامات اگر صوبہ اسلام آباد میں شامل ہو جائیں تو نئے صوبے کی سیاحت، جمالیاتی قدر اور معاشی سرگرمیوں کو نئی جہت ملے گی۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی موجودگی اس ضلع کی دفاعی اور قومی اہمیت کو بھی بڑھاتی ہے۔

ضلع مانسہرہ پاکستان بھر میں اپنے عالمی معیار کے سیاحتی مقامات کی وجہ سے مشہور ہے۔ کاغان اور ناران کی وادیاں، شوگران، سری پائے، جھیل سیف الملوک، بٹہ کنڈی، جلکھڈ اور بابوسر ٹاپ جیسے مناظر اگر صوبہ اسلام آباد کا حصہ بن جائیں تو یہ علاقہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرسکتا ہے۔ جیسے دنیا سوئٹزرلینڈ کو سیاحتی جنت کے طور پر دیکھتی ہے، اسی طرح اگر ان علاقوں کو حکومتی سرپرستی، جدید سہولیات اور مضبوط صوبائی سپورٹ حاصل ہو تو یہ خطہ عالمی سطح پر اپنا مقام بنا سکتا ہے۔
یہ تمام علاقے ہزارہ موٹروے کی موجودگی کی وجہ سے اسلام آباد کے ساتھ پہلے ہی جوڑے جا چکے ہیں اور مجوزہ بابوسر ٹاپ موٹروے پر بھی سروے ہو رہے ہیں اور اسکی تکمیل اس علاقے کی سیاحتی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہزارہ ڈویژن کا لسانی، معاشرتی اور تہذیبی رشتہ اسلام آباد اور پنجاب کے ساتھ بہت مضبوط اور قدیم ہے۔ محمود غزنوی کے بعد آنے والی حکومتیں، چاہے وہ مغل ہوں یا برطانوی سب نے ہزارہ کا انتظام زیادہ تر پنجاب اور دہلی کے مراکز سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1955 سے 1970 تک ہزارہ کا علاقہ ون یونٹ کا حصہ رہا ہے جسکا نظم وفاق سے ہی چلایا جاتا رہا ہے اور 1970 میں ہزارہ کو پشاور ڈویژن میں شامل کیا گیا اور بعد ازاں خیبر پختونخواہ کا ہی حصہ بناتے ہوئے بطور ڈویژن شامل کیا گیا۔

ہزارہ کے لوگوں کی زبان، لہجہ، معاشرت، رہن سہن اور روایات پوٹھوہار اور اسلام آباد کے خطے کے لوگوں کے بہت قریب ہیں۔ لہٰذا لسانی اور روایتی اعتبار سے بھی ہزارہ کا اسلام آباد کے ساتھ انضمام عوام کے لیے زیادہ موزوں اور فطری ہے۔ انتظامی طور پر بھی وفاقِ پاکستان کے لیے اس انضمام سے مجموعی فائدہ ہی ہوگا، نہ کہ نقصان۔

اسی بنیاد پر ہم دوبارہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر پاکستان میں تمام صوبوں کی ازسر نو تشکیل ممکن ہو تو صوبہ ہزارہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ہزارہ کے علاقوں کو صوبہ اسلام آباد کا حصہ بنایا جائے، کیونکہ یہ ہر لحاظ سے مملکتِ خداداد پاکستان کے مفاد اور فلاح میں ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں