تحریر: سردار عبد الکفیل
چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک خواجہ سرا کے جنازے کی خبر وائرل ہوئی ، یہ محض خبر نہیں تھی بلکہ ایک انسانی احساس، ایک معاشرتی پیغام تھا ، ایبٹ آباد کے لوگوں نے وہ کام کر دکھایا جو کم ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے ،ایک خواجہ سرا کا جنازہ دن کے اجالے میں عزت و احترام کے ساتھ ادا کیا گیا ،
یہ وہی معاشرہ ہے جہاں اکثر خواجہ سراؤں کو رات کے اندھیرے میں خاموشی سے دفنایا جاتا ہے ، مگر ایبٹ آباد نے یہ روایت بدل ڈالی اور دلوں کو خوش کر دیا۔ اس عمل کو صحافی عامر ہزاروی، رجب علی آزاد اور دیگر اہل قلم نے بھی لکھا ،
یہ لمحہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو زندہ تو ہیں مگر جیتے نہیں ، گاڑی میں بیٹھیں تو لوگ منہ موڑ لیتے ہیں ، بازار میں چلیں تو طنز کے تیر سہنے پڑتے ہیں ، گلیوں میں آئیں تو بچے ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور بڑے قہقہوں سے لطف اٹھاتے ہیں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ تعلیم ، علاج، روزگار سمیت کوئی بنیادی سہولت انہیں میسر نہیں معاشرہ انہیں صرف گانے ، ناچنے اور شادیوں پر تالیاں بجانے تک محدود دیکھنا چاہتا ہے۔
کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کہاں رہتے ہیں؟ ان کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے ؟ کرایہ ، علاج ، کھانا ، لباس ، یہ سب کیسے پورا ہوتا ہے ؟
جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ خود اس زندگی کے ذمہ دار ہیں، ان سے سوال ہے ؟ کیا آپ نے کبھی ان کے ٹھکانے پر جا کر پوچھا کہ تمہیں کیا چاہیے ؟کیا آپ نے کبھی ایک خواجہ سرا کو انسان سمجھ کر اس کے دکھ سنے؟
میرے استاد ایک بار خواجہ سراؤں پر تحقیق کے سلسلے میں ایک خواجہ سرا سے ملے تو وہ اپنی زندگی کے حالات بتاتے ہوئے زار و قطار روتا رہا۔
یہ لوگ وہ ہیں جن کے پاس کبھی کھانے کو کچھ نہیں، کبھی معاشرتی مسائل کا طوفان اور کبھی ہم ؟ ہم صرف ہنستے ہیں، مذاق بناتے ہیں، تماشا دیکھتے ہیں۔
میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ انہیں بھی عام شہری کی طرح مکمل حق دیا جائے ،تعلیم، صحت، روزگار اور انسانی عزت ، یہ وقت ہے کہ اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑا جائے۔ خواجہ سرا معاشرے کا بوجھ نہیں، معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہیں وہی مقام ملنا چاہیے جو اسلام، آئین اور انسانیت ہر فرد کو دیتی ہے۔
یہ صرف ایک جنازہ نہیں تھا،
یہ انسانیت کی جیت تھی۔
