لاہور
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق اپنی 39ویں سالانہ عام اجلاس کے اختتام پر آئینی جمہوریت، شہری آزادیوں اور ملک بھر میں کمزور طبقات کے تحفظ کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
ایچ آر سی پی کو 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر شدید تشویش ہے، جو عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہے اور ان معاملات پر انتظامیہ کا اختیار بڑھاتی ہے جو انتظامی مداخلت سے محفوظ رہنے چاہئیں۔ عوامی اعتماد پہلے ہی کمزور ہے اور ایسے وقت میں یہ ترمیم نظامِ احتساب کو مزید کھوکھلا کر دے گی۔
سرکاری عہدے داروں کو حاصل تاحیات استثنا نے اختیارات کو چند ہاتھوں میں اس حد تک سمیٹ دیا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی عملاً کمزور پڑ گئی ہے۔ ایچ آر سی پی اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ بااختیار اور منتخب مقامی حکومتیں جمہوریت کے استحکام اور شہریوں کی نظم و نسق میں شمولیت بڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے تدارک کے اقدامات میں بنیادی آزادیوں اور اختلافِ رائے کے حق کا تحفظ لازمی ہے۔ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ کی طویل بندش نے تعلیم، روزگار اور جمہوری شرکت کو شدید متاثر کیا ہے جسے فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ایچ آر سی پی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ حقوق کے احترام پر مبنی سیکیورٹی اقدامات اپنائیں، ریاستی اہلکاروں کی بدسلوکی کی غیر جانبدار تحقیقات کریں، اور مقامی برادریوں کے ساتھ بامعنی مشاورت کو یقینی بنائیں۔ اس میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور قانون کے معین ضابطے کے بغیر حراستی مراکز کے استعمال کا خاتمہ شامل ہے۔ اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے شیڈول فور کا استعمال فوراً بند ہونا چاہیے۔
ایچ آر سی پی کو افغان پناہ گزینوں کی جاری ہراسانی، حراست اور جبری ملک بدری پر شدید تشویش ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کو ظلم و ستم، خاندان سے جدائی اور شدید انسانی بحران کے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔
حکومت ملک بدری فوری طور پر معطل کرے، قانون کے معین طریق کار کے تحت سلوک کو یقینی بنائے، اور بین الاقوامی حفاظتی اصولوں پر عمل کرے۔ پاکستان کو 1951 کے اقوامِ متحدہ کے مہاجر کنونشن اور 1967 کے پروٹوکول کی توثیق کرنی چاہیے اور پیدائشی شہریت اور شہریت کے حق کا تحفظ کرنا چاہیے۔
حراستی تشدد اور ماورائے عدالت قتل، بالخصوص سی سی ڈی اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے ہاتھوں، فوری آزادانہ تحقیقات اور جوابدہی کے متقاضی ہیں۔ ایسی سنگین خلاف ورزیاں سزا سے استثنا کو بڑھاتی ہیں اور شہریوں کے حقِ زندگی اور وقار کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
مذہبی اقلیتیں، خصوصاً احمدی برادری، ہجوم کے تشدد، عبادت گاہوں پر حملوں اور قبروں کی بے حرمتی کا مسلسل نشانہ بن رہی ہیں۔ ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے، نفرت انگیزی اور تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کارروائی کرے، توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی تحقیقات کے لیے طویل عرصے سے زیر التوا کمیشن کو فعال کرے اور جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کرے۔
کم عمری کی شادی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے جو بچیوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کو شدید خطرات سے دوچار کرتی ہے۔ ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ قوانین میں ’نابالغ‘ کی تعریف کو یکساں کیا جائے اور 18 سال سے کم عمر کی تمام شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ تعلیمی اداروں اور دیگر سرکاری و نجی جگہوں پر جنسی ہراسانی بھی برقرار ہے؛ محفوظ ماحول کے لیے رپورٹنگ کا مضبوط نظام، شفاف احتساب، اور مؤثر تربیت لازمی ہے۔
ایچ آر سی پی حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بے گھر ہونے والے افراد، خاص طور پر گلگت بلتستان میں، کے لیے محفوظ پناہ، بنیادی سہولیات اور بحالی کے مستحکم اقدامات کو یقینی بنائے۔ جنوبی پنجاب سمیت حالیہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے گھروں اور روزگار کی بحالی کے لیے طویل المدتی معاونت لازمی ہے۔ پاکستانی اور بھارتی ماہی گیروں کی قید کا مسئلہ بھی فوری توجہ کا متقاضی ہے؛ انہیں اپنے اپنے ممالک واپس بھیجا جائے، انسانی سلوک، قانونی نمائندگی اور بلاجواز حراست سے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ ان کے بنیادی حقوق اور روزگار محفوظ رہیں۔
اسد اقبال بٹ
چیئرپرسن