Skip to content

احمد ریاض کی کتاب "آنکھیں ، یقیں ، چراغ ” کی حسیں وادی

شیئر

شیئر

تحریر: سہیل احمد صمیم.
میری یاد میں ایک ایسی خاموش وادی تھی جہاں شام کی مدھم روشنی نے ہر شے کو سنہری چمک سے نوازا ہُوا تھا ۔ ہوائیں ہلکی ہلکی سرگوشیاں کرتی تھیں، اور ایک نرم سنسناہٹ فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ میری آنکھوں نے اُس منظر کو دیکھتے ہی ایک خواب کی گہرائیوں میں ڈوبنا شروع کر دیا تھا۔ میں اکثر اُس وادی جایا کرتا تھا کہ وہاں ہر شے اپنی جگہ خاموش، مگر ہر خاموشی میں یقین کی سرگوشی سنائی دیتی تھی ۔”وہاں کے پتھروں میں دلفریب عکس تھے۔ وہاں سرور تھا وہاں پہ رقص تھے” ۔ ایسا لگتا تھا وہ کہتی تھی کہ مجھے ددبارہ جنم دینے کی ضرورت ہے ۔
اِسی وادی میں، ایک قدیم درخت کی جڑوں کے قریب، روشنی کے ہالے میں ایک چراغ جل رہا تھا۔ چراغ کی ترچھی، سنہری لو نے دل کی سرزمین پر امید کے رنگ روشن کر دیے۔ آنکھیں اُس روشنی کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں، اور یقیں دل میں چپکے سے بستا جا رہا تھا۔ یہ چراغ محض روشنی کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ ہر چمک کو آنکھوں ہی آنکھوں میں یقیں کا پیغام دیتا تھا۔
یہ ایک ایسے خوابوں وادی تھی، جہاں آنکھیں، یقیں، اور چراغ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے چلتے تھے۔ ہر شے میں روشنی تھی، اور ہر روشنی میں امید کا پیغام تھا۔ یہاں ہی قدیم کہانیاں سنائی جاتی تھی، جہاں یقین نے ناممکن کو ممکن بنا دیا تھا، اور چراغ نے اندھیری راہوں کو اجالادیا تھا۔ مگر اب وہ وادی ختم ہو چکی ہے ، مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ حسیں وادی اب احمد ریاض کی کتاب "آنکھیں، یقیں چراغ ” کی صورت میں موجود ہے جو مجھے اُس حسیں وادی کی سیر کرا تی رہتی ہے۔

چہرے کی آبرو سے روشن حسیں چراغ۔
آنکھوں کے روبرو ہیں آنکھیں، یقیں، چراغ
ہم نے سخاوتوں کو بیچا نہیں جناب۔
دیکھا جہاں اندھیرا رکھا وہیں چراغ
نفرت کی آندھیوں میں اُکھڑے ہزار سانس ۔
میں نے کہا تھا اُن کو بجھتے نہیں چراغ

احمد ریاض کی کتاب آنکھیں،یقیں ، چراغ صرف غزلوں اور نظموں کا مجموعہ نہیں ، بلکہ یہ ایک طویل تر انسانی سفر کی کہانی ہے، جہاں یقین اور خوابوں کی روشنی کا لمس ہر طور بکھرا ہوا ہے۔اور اپنے اندر گہرے معنی پوشیدہ رکھے ہوئے ہے۔یعنی آنکھیں وہ آئینہ ہیں جو دل کی سچائیوں کو دیکھتا ہیں، "یقیں” وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو چیرتی ہے، اور "چراغ” اُس امید کی علامت ہے جو ہر مصیبت میں بھی جلتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کی رنگینیاں وقتی ہیں، یقینی روشنی کے بغیر آنکھیں محض پتھر ہیں۔ مگر چراغ کی ساتھ یقین شامل ہو تو یہ روشنی ابدی ہو جاتی ہے۔

آنکھیں ہیں ، تماشا ہے، طبیعت کا فسوں ہے ۔
یوں غور سے دیکھیں تو یہ لگتا ہے کہ یوں ہے
اِک نام کبھی دل کے دریچے میں سجا تھا ۔
اک شعر ابھی شعلہِ امکانِ دروں ہے

روایت اور جدیدیت میں احمد ریاض کی شاعری کا مزاج یوں ہے جیسے مسافر اور منزل کا۔ وہ روایتی سفر پرہے لیکن اُس کی راہنمائی کے چراغ جدید ہیں اورساتھ ساتھ یقین اور سلیقے کی قوت ہے جو اسے کبھی ٹھہرنے نہیں دیتی۔ یوں احمد یاض کا سفر شعری دنیا میں منفرد بن جاتا ہے، کیونکہ اُس کے شعروں کی ہر روشنی اپنے اندر ایک نیا راستہ، ایک نیا خواب، اور ایک نئی امید لے کر آتی ہے۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ احمد ریاض کی آنکھوں کے اندر ایسے بے شمار مقامات ہیں، جہاں بے پناہ سوالات ہیں ۔ اُن سوالات کے دامن میں ایک چراغ اپنی روشنی پھیلائے کھڑا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے چراغ کی روشنی کو یقین ِسحر ملا ہوا ہو۔

طلوعِ فکرِ تازہ پر یقیں سے بات کرتا ہوں ۔
جہاں موجود ہوتا ہوں وہیں سے بات کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری کا خمار ہوتا ہے۔
روز سر پر سوار ہوتا ہے
واہموں کی ٹرین میں بیٹھا۔
حادثے کا شکار ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
سب مسائل کا ایک حل جانیا
رہگذارِ محبت پہ چل جانیا

کوئی بھی شعر یا ادب کا ٹکڑا اُس وقت تک عظیم اور اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ معاشرے کی اخلاقی حالت، معاشرتی واقعات، اور لوگوں کی زندگیوں سے جڑا نہ ہو۔ احمد ریاض اس حوالے سے خوش بخت ہے کہ اس کے فن میں یہ گہرائی اور وسعت موجود ہے۔
اور یہ بھی لازم ہے کہ ہر لکھاری کے فن کو اُس کے کردار، خیالات اور اس کی گہرائی سے پرکھا جائے۔ اکثر اوقات بیرونی حالات اور واقعات بھی ادیب یا شاعر کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر ایک بڑا شاعر وہی ہے جو اپنے خیال اور بیان سے قاری کے ذہن اور دل پر گہرا اثر چھوڑے۔ احمد ریاض کا کمال یہ ہے کہ وہ قدیم روایتوں کو جدید رنگ میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ، جدید موضوعات کوروایتی انداز میں بیان کرنے کا فن بھی بخوبی جانتا ہے۔

اقرار زیاد ہے نہ انکار زیادہ ۔
کچھ سوچتے رہتے ہیں مرے یار زیادہ
ہم خالق و مخلوق کے مابین رہے ہیں ۔
اُس پار زیادہ ہیں ، نہ اِس پار زیادہ

آنکھیں ، یقیں ، چراغ کی حسیں وادی جو نئے جنم کی خواہش کرتی تھی اُس کیا خبر کہ نئے جنم کی تصادم خیز شہ سرخیاں، سروں کی صداقت، سماعت کے دریچے اور گردن پر رکھے سر کو جب سراب زدہ کر دیں تو خواب کی طاقت نیند کے غلبے کے آگے بے بس ہو جاتی ہے۔ یعنی رنگ آنکھوں میں نہ ہوں توزندگی کی خوبصورتی کے رنگوں کا جواز صرف دیوار بن کر رہ جاتا ہے۔
ضرورتیں، انا اور ہوس جب دل آویز دریچوں پر حاوی ہو جائے تو محبتوں کی ہر یالی، ذہنوں کی خوشحالی اور سوچوں کی شادابی منجمد ہو جاتی ہے۔
جب تعلیم و سیاست مال و زر کے حصول تک محدود ہوجائے تو انسانی معاشرہ یقینی طور پر اپنی فکری بلندی اور ذہنی وقار کا تعین پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ جب انسانی قدروں کی پامالی ہو، فکروں اور روایتوں سے لوگ دور ہونے لگیں تو توکل کی نرم دھوپ اور احساس و مروت کی ٹھنڈی چھاؤں کی تلاش لاحاصل بن جاتی ہے۔مگر احمد ریاض کو ادراک ہے ۔ انہی مسائل کے پیشِ نظر وہ کہتا ہے

اب کسی خاص بہانے سے نکا لا جائے۔
آخری سانپ خزانے سے نکالا جائے
میری خدمات کے بدلے میں یہی بنتا ہے۔
مجھ سا حقدار گھرانے سے نکالا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی بے تحاشا مسائل میں ہے، فیصلہ آپ خود کیجئے
فیصلہ آج بھی ایک فائل میں ہے، فیصلہ آپ خود کیجئے

آنکھیں ، یقیں ، چراغ کی شعری سفر میں دور دور تک لطیف فضا، ذوق آمیز موسم اور دل پذیر چاندنی کے آثارعیاں ہیں۔جستجوئیں ، تمنائیں اور مضامین سارےجواں ہیں ۔ وسعتوں کے مرکزی رنگ محوِ کارواں ہیں ۔ اور شعروں مینں بہت سی چیخیں نہیں بلکہ ایک جاندار آواز ہے ۔ جسے کانوں سے پیشتر روح سننا چاہتی ہے۔ جسے بے ترتیب تعمیر و ترقی کی بجائے توازن کی پگڈنڈی کی تلاش ہے۔
جس میں زمینی حقائق کی موت کا غم بھرا ہُوا ہے، یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ احمد ریاض ایک حقیقت پسند آدمی ہیں انہیں معلوم ہیں کہ آواز، خیال، سر، تال اور روٹی کی معنوی مٹھاس کی بجائے حقیقی مطلب نکالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

من و سلویٰ نہیں اُترا مرے لوگو ہم پر ۔
ہم کو یہ خاک سجانے میں بڑی دیر لگی۔

بحیثیتِ اشرف المخلوقات ضروری ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کی قدر، تکریم اور انسانی آزادی کا تہذیبی مقلد ہو۔ یہی ادب کا حقیقی اکتساب بھی ہے اوراحمد ریاض کا اختصاص بھی۔

پھولوں کی تہذیب یہی ہے خوشبو کے انداز میں آنا۔
آنے کے آثار بنیں تو موسم کے آغاز میں آنا
لہجے کے اوزان ذرا سا مشکل ہے ترتیب میں لانا۔
اتنا بھی آسان نہیں ہے خود اپنی آواز میں آنا ۔

میں احمد ریاض کو اس عظیم کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ آپ کی علمی خدمات کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔آخر اتنا ہی کہوں گا۔
اگرچہ چاروں اطراف بے نوری ہو چکی ہے
مگر مسافرانِ محبت کی منظوری ہو چکی ہے
اپنی اپنی آگ ضروری ہو چکی ہے
یعنی، آنکھیں یقیں چراغ کی داستان پوری ہو چکی ہے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں