فرحت عباس شاہ
” مجموعہ چُپ چُپیتے ” میری نظر سے نہیں گزرا لیکن میں اس مجموعے کے بارے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ
” چُپ چُپیتے ” ایک نہایت عمد و اعلیٰ شاعر کے سفر کی ابتدا ہے۔ گزشتہ چالیس سالہ ادبی صورتحال کا تشدد سہہ سہہ کے اب میرا تنقیدی رویہ اور زاویہ نظر کافی مختلف ہوچکا ہے ۔ مجھے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ زیر نظر عظیم شاعر کہیں افتخار عارف کی طرح درباری ، امجد اسلام امجد کی طرح لالچی ، قاسم پیرزادہ کی طرح نحیف ، عباس تابش کی طرح چور اور اسلام آباد کے چند مخصوص جدید نظم نگاروں کی طرح فراڈیا تو نہیں ۔
حالات نے مجھے سکھایا ہے کہ سب سے پہلے دیکھنا ہی یہ ہے کہ تخلیق کار حقیقی ہے یا مصنوعی ۔
ملا نہ کر نئے شاعر پرانے گُرگوں سے
کہ شہر اجڑا ہے ان بدقماش لوگوں سے ( فقیر تقی فقیر )
دوسرا میرے نزدیک اب شاعر اگر انفرادی و اجتماعی شعور اور سماجی احساس سے محروم ہے اور کسی بھی طرح کے نظریے سے تہی ہے تو یقینا” وہ سماج کے لیے کسی بھی طرح سےقابل ِ قبول نہیں ۔ ہمارا معاشرہ جس حال کو پہنچ چکا ہے اب اس کی تشکیل نَو اگر ممکن ہے بھی تو جون ایلیاء جیسا عضو ِ معطل ہمارے لیے زہر ِ قاتل بلکہ بازوۓ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے گم کردہ راہ شعراء اب سوائے کراۓ کے لبرلز اور بھاڑے کے مولویوں کے کسی اور کے قابل نہیں رہ گئے کیونکہ یہ لوگ اب محض ان کے مشن یا حظ نفس کا باعث ہیں اور کسی ناگزیر تعمیری عمل کا حصہ نہ بن سکنے کی وجہ سے معاشرے کے لیے باقاعدہ مضر ہیں ۔ یہ بات اگر چہ کل تک نہیں تھی لیکن آج پتھر پر لکیر کی طرح واشگاف کہ بے راہ رو اور گمراہ شاعر یا ادیب سماج کے لیے سواۓ فکری و تہذیبی تباہی کے اور کسی کام کے نہیں رہے ۔
اس ساری تمہید کے بیان کرنے کا مطلب یہ گواہی دینا ہے کہ احمد ریاض ایک طاقتور حقیقی و فطری شاعر ہے اور درباری ، مفادپرست ، چور اور چوکس طبقات کے لیے ننگی تلوار ہے ۔ احمد ریاض انسانی احساس کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی شعور سے سرشار اور بین الاقوامی شیطانی قوتوں کے ایجنڈوں اور ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف ہے ۔ یہ وہ وقوف یا ادراک ہے جو کئی دفعہ حقیقی شاعر کو غیراعلانیہ اور نان فارمل ذرائع سے قدرت ودیعت کرتی ہے ۔ اکثر اوقات یہ معلومات کتابوں اور دیگر معلوماتی ذرائع سے وصول کرکے بھی علم کے درجے تک نہیں پہنچ پاتیں کہ ذات کا حصہ بن کر عمل میں ڈھلتی نظر آئیں ۔ مثال کے طور پر شعر دیکھئیے ۔۔۔۔۔
یہ بستی خوف سے خالی تھی بھائی
یہاں باہر سے ڈر لایا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر احمد ریاض نے اور کچھ بھی نہ لکھا ہوتا تو پھر بھی اس کے شعری شعور کی عظمت کے ثبوت کے لیے یہ ایک شعر ہی کافی تھا جبکہ اس کے ہاں ایک سے ہٹ کے ایک ایسا شعر موجود ہے ۔
دوشعر اور ملاحظہ کیجئیے ۔۔۔۔۔۔
تقسیم کر رہے ہو جسے اپنے نام سے
سب کو پتا ہے یار کرائے کا خوف ہے
ان کو ہے اپنے اپنے محل کی پڑی ہوئی
لیکن مسافروں کو سرائے کا خوف ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بات جس پر میں بار بار اصرار کروں گا کہ ادب ایک نہایت سنجیدہ اور باوقار انسانی سرگرمی ہے جو آج تخلق کار کے لیے انسانی و سماجی شعور کی ترسیل کے فریضے کے درجے پر فائز ہوچکی ہے ۔ یہ شراب پی کر مدہوش ہونے والے اور محبوب کی گلی کے چکر کاٹنے والے چھچھورے عاشقوں کا کام نہیں رہ گیا۔ یہ انتہائی مخلص ، بے لوث اور بلا کے صاحبان ِ علم و بصیرت کا کام ہے ۔ چالاک لوگوں کو یہ جان لینا چاہئیے کہ بڑا ادب تخلیق کرنا چالاکوں نہیں داناؤں کا کام ہوا کرتا ہے ۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح بھاگتے پھرتے غیرسنجیدہ کمتر شاعروں کا ہجوم پھر پھرا کے ایک دوسرے کے سطحی شعروں کی جگالی کے علاوہ کر ہی کیا رہا ہے ۔ اس ہجوم کو تو یہ تک معلوم نہیں کہ آج خالص انسان کا احساس تنہائی کس سطح پہ جا پہنچا ہے۔ یہ شعور بھی ہمیں ہمیشہ بڑے مفکرین اور اعلیٰ تخلیق کاروں کے ہاں ہی نظر آیا ہے ۔ احمد راض کے اشعار دیکھئے ۔۔۔۔۔
راستے سنسان ہیں اور میں اکیلا آدمی ہوں
سینکڑوں امکان ہیں اور میں اکیلا آدمی ہوں
فائدے کی دوڑ سے لوٹا، تو دیکھا پوٹلی میں
بے بہا نقصان ہیں اور میں اکیلا آدمی ہوں
ذات کی الماریوں میں روشنی کے بھید جیسے
ایک دو دیوان ہیں اور میں اکیلا آدمی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ریاض ایک صاحب نظریہ شاعر ہیں جنہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ زبان پر گرفت ، فنی چابکدستی اور ہنروری کبھی اچھے شعر کا باعث نہیں بنتے بلکہ تخلیقی صفت کی عطاء ، احساس کی ریاضت اور فطری بےساختگی ہی بڑے اور مختلف شعر کے ظہور کا باعث ہوا کرتے ہیں ۔ احمد ریاض کے کریڈٹ پر جس تعداد میں ارفع و اعلیٰ اشعار اب تک آچکے ہیں یہ انعام ہر ایک شاعر کو نصیب نہیں ہوا کرتا ۔ یقینا” یہ احمد کے صبر و خلوص اور سچائی کی بارگاہ ِ ایزدی میں قبولیت کا ثبوت ہے ۔
آخر میں احمد ریاض کا ایک مختصر سا انتخاب آپ کے ذوق ِ سلیم کی نظر ۔۔۔۔۔
ہمارے حوصلوں کو اب کہاں حاجت دعا کی
ہمیں اجرت میں تھوڑا سا اضافہ چاہیے تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ ہوتی نہیں کبھی قانع
دل کفایت شعار ہوتا ہے
واہموں کی ٹرین میں بیٹھا
حادثے کا شکار ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن کی کہانیاں ہیں نہ قصہ ہے شام کا
تعویذ دے رہا ہوں محبت کے نام کا
دو چار اہل دل کہ طبیعت شناس ہیں
ورنہ رہا کہاں ہے کوئی شخص کام کا
سب کو پتہ ہے یار مقامی نہیں ہوں میں
کچھ تو خیال کیجیے میرے مقام کا
ہم بھی محبتوں میں تحائف پسند تھے
اس کو بھی حوصلہ تھا رفاقت کے دام کا
حالانکہ کہ سب شریک ہیں، دکھ میں عوام کے
لیکن کسے خبر کہ جو دکھ ہے عوام کا
بولی نہیں لگائی ترازو میں تول کر
سودا نہیں کیا کبھی اپنے کلام کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ضمانتوں کے ضمیمے نہ پوچھیے
باندھا ہوا ہو جس نے بھی ضامن امام کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاک منزل کے مقامات وضاحت کرتے
اینٹ گارے کو جو تعمیر سمجھ لیتے ہیں
بعض احباب سے تفصیل الجھ پڑتی ہے
بعض ہوتے ہیں جو تصویر سمجھ لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاہے گاہے کسی کافر کے نظر آنے سے
شک جو ایمان میں آتا ہے نکل جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
آسانی کی آس پہ کب سے
مشکل میں انسان پڑا ہے
لمحوں کا نقصان ہوا تھا
صدیوں کا تاوان پڑا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے کی آبرو سے روشن حسیں چراغ
آنکھوں کے روبرو ہیں آنکھیں، یقیں، چراغ
غیروں کے آسماں کا تارا نہیں عزیز
ہم کو تو آج بھی ہے اپنی زمیں چراغ
ہم نے سخاوتوں کو بیچا نہیں جناب
دیکھا جہاں اندھیرا رکھا وہیں چراغ
۔۔۔۔۔۔۔
جا بجا انسان کو بانٹا گیا ہے
جا بجا طبقات میں دیکھا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اب جان بچاؤں کہ عقیدہ، مرے مولا
حالات کشیدہ ہیں، کشیدہ مرے مولا”
۔۔۔۔
یاد رکھو کہ محبت کی نظر ہو جس پر
ایسا بیمار دکھایا نہیں جاتا سب کو”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
