تحریر: عمرخان جوزوی
تحریک انصاف کے کھلاڑی جس طرح عمران خان کومرشدکہتے اورسمجھتے ہیں اسی طرح آبائی گاؤں میں ایک صاحب کوہم بھی مرشدکہتے اورسمجھتے ہیں۔پیرخالدکوتولوگ پیرصاحب بولتے ہیں لیکن ہم اسے کپتان کے نادان کھلاڑیوں کی طرح مرشدہی کہتے ہیں یہ الگ بات کہ جوپیاراورمحبت کپتان کااپنے کھلاڑیوں سے ہے وہ ہمارے مرشدکاہم سے نہیں،ویسے کھلاڑیوں کے مرشداورہمارے والے مرشدمیں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔کھلاڑیوں کے مرشدنے دوسری اورتیسری شادی کی مٹھائی اوربریانی جس طرح مریدوں کونہیں کھلائی اسی طرح ہمارے مرشدنے بھی دوسری شادی کے موقع پرہمیں یادکرنا مناسب نہیں سمجھا،لگتاہے مرشدوں کواقتدار،کرسی،خوشی اورعروج کے موقع پرہمارے جیسے غریب مریدپھریادنہیں رہتے۔خیرگزرے ہفتے پیرصاحب گاؤں سے ہمارے پاس خصوصی طورپرتشریف لائے،پیرصاحب نے کچھ دوستوں کی غربت اوربیروزگاری کے واقعات سنائے توواللہ دل بہت اداس ہوا۔اپنااتناوس اوربس نہیں کہ مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے ہاتھوں کسی گرنے والے کاہاتھ تھام سکیں،اس لئے جب بھی ایسے واقعات دیکھتے یاسنتے ہیں توپھربہت تکلیف ہوتی ہے۔سمجھ نہیں آرہی عوام کے حال پرروئیں،چیخیں یاچلائیں،پتہ نہیں اس قوم کوکس جرم اورگناہ کی سزامل رہی ہے۔؟اس ملک میں نوے نہیں بلکہ پچھانوے فیصدلوگوں کی زندگی اسی سوچ اورامیدمیں گزررہی ہے کہ آنے والادن پہلے سے بہترہوگالیکن ہرصبح جب لوگ مڑکرپیچھے دیکھتے ہیں تویہی لگتاہے کہ دن تووہی اچھے تھے جوگزرگئے۔آنے والاہردن عوام کے لئے پہلے سے زیادہ مشکل،تنگ اورسخت ثابت ہورہاہے۔اقتدار،حکومتیں اورچہرے بدلنے کے باوجودعوام کے حالات نہیں بدل رہے۔سنگ مرمرسے بنے محلات میں خراٹے مارنے اورلینڈکروزرمیں پھرنے والوں کوشائدعلم نہ ہوپرحقیقت یہ ہے کہ بڑھتی مہنگائی،غربت اوربیروزگاری نے عوام سے جینے کی امیدبھی چھین لی ہے۔ایک ہزارکی دیہاڑی لگانے اورماہانہ بیس تیس ہزارتنخواہ لینے والے گناہ گارکس طرح زندگی گزاررہے ہیں یہ صرف وہ اوران کاخداجانتاہے۔ماناکہ موجودہ حکومت نے عوام کوریلیف دینے کے لئے بہت سے اقدامات کئے پرمہنگائی نے اس وقت طوفان کی جوشکل اختیارکی ہوئی ہے حکومتی اقدامات اس طوفان کے سامنے درختوں کے سوگے پتے ثابت ہورہے ہیں۔خیبرپختونخواسمیت ملک بھرمیں چیک اینڈبیلنس کے فقدان کی وجہ سے مصنوعی مہنگائی اورگرانفروشی نے عوام پرزندگی کوعذاب بنادیاہے۔سچ پوچھیں توبجلی اورگیس کے بھاری بلوں کے ساتھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں عدم استحکام سے غریب لوگ اب جینے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔فوڈاتھارٹی کے ساتھ اشیاء کی قیمتیں کنٹرول اورچیک کرنے کے لئے افسران ہرعلاقے اورشہرمیں موجودہیں لیکن اس کے باوجودکسی علاقے اورشہرمیں قیمتوں کاکوئی کنٹرول نہیں۔ہرجگہ ایک عام ریڑھی بان سے لیکربڑے تاجرتک ہرشخص نے من مانے نرخ اورریٹ مقررکرکے اپنی حکمرانی وبدمعاشی قائم کی ہوئی ہے۔کسی صوبے اورشہرکیاکسی ایک بازاراورمارکیٹ میں بھی کسی چیزکاایک ریٹ نہیں۔حکومتی رٹ قائم اوراشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے نام پرسرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں لینے والے توکروڑوں مالیت کی گاڑیوں میں خراٹے مارکرسیرسپاٹے کررہے ہیں لیکن عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے چھوٹے اوربڑے مگرمچھوں پرہاتھ ڈالنے یاان سے پوچھنے کے لئے کسی کے پاس ٹائم نہیں۔اسی وجہ سے ملک میں کبھی آٹے کا بحران سراٹھاتاہے اورکبھی چینی اورٹماٹرکا۔نظام ٹھیک اورڈنڈاسخت ہوتواس ملک میں کسی شئے کی کوئی کمی نہیں۔گندم،چاول،سبزیاں اورگنے سمیت اس ملک میں کیاکچھ نہیں ہوتا۔؟آپ گلگت سے کشمیراورچترال سے کراچی تک دیکھیں قدرت نے اس ملک کوہرنعمت سے مالامال کیاہواہے۔یہ زمین سوناہے جس سے ضرورت کی ہرشئے ہم حاصل کررہے ہیں لیکن افسوس چندمفادپرستوں کی وجہ سے اس ملک میں ہرنعمت موجودہونے کے باوجودعوام کبھی آٹا،کبھی چاول،کبھی چینی اورکبھی ٹماٹرکے لئے خوارہورہے ہیں۔سالہاسال عوام کواشیاء کی مصنوعی قلت کے ذریعے جی بھرکرلوٹنے کے باوجودمفادپرستوں اورذخیرہ اندوزوں کے جہنم نہیں بھررہے۔مصنوعی مہنگائی کے ذریعے غریبوں کاخون چوس چوس کراب توان ظالموں کے پیٹ اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ اس حساب سے انہوں نے ذخیرہ اندوزی کے لئے اپنے گودام بھی بڑے کردیئے ہیں۔ہم نے ایسے بہت ظالم دیکھے ہیں کہ باہرلوگ آٹااورچینی کے لئے مارے مارے پھررہے ہوتے ہیں اوراندران کے گودام ہرچیزسے بھرے ہوتے ہیں۔ہمیں یادہے چندسال پہلے جب مارکیٹ میں اچانک آٹے کابحران لانچ کیاگیاتوپھرکئی بڑے بڑے حاجیوں اورنمازیوں کے گودام سے ایک دونہیں ٹرکوں کے حساب سے آٹے کی بوریاں برآمدہوئیں۔یہ آٹے،چینی اورچاول کے بحران کوئی آسمان سے نہیں آتے۔یہ انہی گوداموں سے نکلتے ہیں۔جب ایک ایک مگرمچھ کروڑوں کامال گوداموں میں ذخیرہ کرکے بیٹھے گاتوپھربحران نہیں آئے گاتوکیاآئے گا۔؟حکمرانوں کاقصوراورگناہ نہیں۔اصل مجرم نچلی سطح پرکالے چشمے لگاکرویگواورپجارومیں پھرنے والے یہ انتظامی بادشاہ ہیں جوماہانہ لاکھوں کی تنخواہیں اوربھاری مراعات لینے کے باوجودایک پائی کاکام نہیں کرتے۔افسرٹھیک اورسیدھے ہوں توسوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ اس صوبے،شہراورعلاقے کے لوگ پھرسیدھے نہ ہوں۔جب افسرہی دفتراورگاڑی تک محدودہوگاتوپھرذخیرہ اندوزاورگرانفروش اللہ کی بے زبان مخلوق کودونوں ہاتھوں سے لوٹ کران کاخون نہیں چوسیں گے تواورکیاکریں گے۔؟چیک اینڈبیلنس اوراچھاساڈنڈانہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہ تاجرمگرمچھ بنے بیٹھے ہیں۔ہمارے ذمہ دارافسران آج ہی اگرٹمبرکاایک اچھاساڈنڈالیکراپنے دفتروں اورگاڑیوں سے نکلیں توآپ دیکھیں کہ اس ملک میں آٹااورچینی سمیت کسی شئے کاکوئی بحران پھرکبھی سرنہیں اٹھائے گا۔یہ بحران سرہی تب اٹھاتے ہیں جب ہمارے افسران اورمتعلقہ ذمہ داران ان مگرمچھوں کے سامنے سرجھکاتے ہیں۔جولوگ غریب عوام کے لئے زندگی عذاب بنارہے ہیں ایسے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ان کے خلاف پورے ملک میں بلاتفریق سخت کارروائی ہونی چاہئیے تاکہ غریب عوام آرام وسکون سے جی سکیں۔
