تحریر: وحید مراد
ڈاکٹر صلاح الدین درویش سے فیس بک کی دوستی کو کئی برس گزر چکے ہیں مگر آج تک بالمشافہ ملاقات کا موقع نصیب نہیں ہوا۔ ہمارا تعلق زیادہ تر کومنٹس اور چیٹنگ تک محدود رہا لیکن یہی مجازی رابطہ رفتہ رفتہ قربت اور انسانی سطح پر ایک دلچسپ تجربے میں ڈھل گیا۔ ان سے شناسائی کا سلسلہ تقریباً پانچ سال پہلے اس وقت بڑھا جب میں فیمنزم پر مضامین لکھا کرتا تھا اور وہ اپنے مخصوص شوخ اور کاٹ دار انداز میں ان پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔
درویش صاحب کے کومنٹس ہمیشہ بھلے لگتے کیونکہ ان میں خشک تنقید کے بجائے جگتیں، لطیفے اور دلآویز خوشگواری ہوتی۔ہر بات کے آخر میں لگا ایک پیار یا قہقہے والا ایموجی اس بات کا اعلان ہوتا کہ اختلاف کے باوجود مکالمہ محبت سے خالی نہیں۔میں بھی ہمیشہ انہیں بڑا بھائی سمجھ کر احترام سے جواب دیتا اور کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ ہمارے درمیان تلخی یا ناگواری کا شائبہ تک ہو۔
وہ ایک ہنس مکھ، زندہ دل اور شرارت آمیز شخصیت ہیں جو سنجیدہ گفتگو کوبھی دلکش بنا دیتے ہیں ۔ان کے تبصرے اکثر کاٹ دار ہوتے ہیں مگر ان میں زہر کےبجائے محبت کی چبھن اور فہم کی مٹھاس ہوتی ہے۔بات کرتے ہوئے وہ کبھی کبھار کوئی پنجابی جملہ ایسے موقع پر کس دیتے ہیں کہ ماحول سنجیدگی سے شوخی کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلوانہیں دیگر نقادوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی کوئی بات فکری گہرائی کے باوجود انسانی گرمجوشی سے خالی نہیں ہوتی۔ان کی باتوں میں دانش بھی ہے، مزاح بھی اور ایک مخلص دوست کی دل نوازی بھی۔ میرے خیال میں اسے تبسمِ فکر کا نام دیا جانا چاہیے۔
ہمارا تعلق ہمیشہ جدلیاتی رہا۔ جیسے دن اور رات، اندھیرا ، اجالا، سمندر اور ساحل، لہر اور ساگر، زخم اور مرہم ،دعا اور سوال۔ یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں مگر ان کے بیچ کشمکش کا نہیں، محبت کا تعلق ہے۔ہمارے درمیان کوئی فکری ہم آہنگی نہیں مگر ایک دوسرے کے وجود سے انکار بھی نہیں ، یہی اس تعلق کی خوبصورتی ہے۔
ڈاکٹر صلاح الدین درویش، واقعی درویش صفت انسان ہیں۔ وہ کسی بھی نظریے، ازم یا فلسفیانہ موقف کو ایمان کا درجہ نہیں دیتے۔ان کا ایمان وہی ہے جو ان کی روحانی اور تہذیبی ساخت کا حصہ ہےاور اس کا ثبوت ان کی وال پر موجود نعتوں، منقبتوں، نوحوں اور مرثیوں کی موجودگی ہے جو ان کی اندرونی وابستگی اور روحانی عقیدت کی علامت ہیں۔البتہ وہ روایت کے مولویانہ جمود اور جامد تعبیرات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک روایت کا کوئی پہلو اگر تخلیق، آزادیٔ فکر یا انسانی احترام کے راستے میں رکاوٹ بن جائے تو اس پر سوال اٹھانا ضروری ہے۔ان کی نظر میں نظریے اور ازمز، ایمان نہیں بلکہ فکری اوزار ہیں ۔ ایسے اوزار جن سے مختلف معاشرتی حالات میں کچھ سیکھا یا سمجھا جا سکتا ہے مگر انہیں حتمی سچ مان لینا فکری غلامی کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر درویش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مغرب سے درآمد شدہ خیالات کے رٹے باز دانشوروں کی قطار میں شامل نہیں۔ نظریات کی یہ حسیں گرل فرینڈز ان کے پہلو میں بھی رونق افروز رہتی ہیں مگر وہ ان میں سے کسی کو بھی عمر بھر کی شریک وفا بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ اپنے مخصوص جگت بھرے لہجے میں ان دوستوں پر بھی اکثر چوٹ کرتے رہتے ہیں جو لکیر کے فقیر بن کر مغربی نظریات کی تقلید کو ہی روشن خیالی سمجھ بیٹھے ہیں۔ شاید یہی ان کی اصل درویشی ہے کہ وہ نہ کسی کی تقلید کرتے ہیں نہ کسی پر حملہ بلکہ مکالمہ کرتے ہیں۔وہ ہنستے ہیں، چھیڑتے ہیں مگر ہر بات کے اندر سوچنے کے لیے کوئی سوال ضرور چھوڑ دیتے ہیں ۔ان کی گفتگو میں سنجیدگی بھی ہے مگر کہیں تعصب یا خود پسندی دیکھتے ہیں تو ان کا لہجہ تیز ہو جاتا ہے جیسے انہیں منافقت سے گہری نفرت ہو۔ وہ بحث کو کبھی ذاتی انا یا نظریاتی تعصب کا مسئلہ نہیں بننے دیتے۔وہ ہر خیال کو اس کے منطقی انجام تک لے جانے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
صلاح الدین درویش کی کتاب "شناخت کا خاتمہ” اردو تنقید میں ایک نئے فکری موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ محض ادبی نظریات کی بازیگری نہیں بلکہ انسان، شعور اور معاشرے کی معنوی ساخت پر ایک گہرا سوال ہے۔ ان کے نزدیک "شناخت” کوئی جامد یا حتمی حقیقت نہیں بلکہ ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے جو وقت، تجربے اور شعور کے ساتھ بنتا، بگڑتا اور ازسرِ نو جنم لیتا رہتا ہے۔
کتاب کا باب "شناخت کا خاتمہ” اس فکری جہت کا نقطۂ عروج ہے۔ یہ باب قاری کو محض علم نہیں دیتا بلکہ اس کے اندر سوال جگاتا ہے۔ یہاں درویش ایک ایسا فلسفیانہ مکالمہ برپا کرتے ہیں جو قاری کو اپنے وجود کے خدوخال پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ جب شناختیں انسان کی آزادی، تخلیق اور روحانی وسعت کے بجائے تعصب، تقسیم اور طاقت کے آلہ کار بن جائیں تو ان کا خاتمہ تخلیقی ضرورت بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر درویش کے ہاں یہ بات محض تنقیدی نعرہ نہیں بلکہ ایک عمیق فکری تجربہ ہے جس میں ان کے اندر کا فلسفی، سماجی مفکر اور ادیب ایک ساتھ بولتا ہے۔ وہ اردو تنقید کو محض لسانی یا نظریاتی سطح سے اٹھا کر ایک عالمی فکری مکالمے سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ادب صرف فن نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ ایسی ذمہ داری جو قاری کے اندر یہ سوال بیدار کرے کہ میں کون ہوں؟اور کیا میری شناخت میری انسانیت سے بڑی ہے؟
ڈاکٹر درویش کے مطابق طاقت کے مراکز صرف سیاست یا اقتدار میں نہیں پائے جاتے بلکہ عمر، سماجی حیثیت، علمی مرتبہ اور روحانی مقام بھی اپنی نوعیت کی طاقت رکھتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان میں سے کسی طاقت پر فائز ہو کر دوسروں پر بالادستی جتانے لگتا ہے تو وہ علم یا روحانیت کے نام پر استحصال کے ایک لطیف مگر مہلک کھیل میں شریک ہو جاتا ہے۔ وہ اس رویے کو اسی شدت سے رد کرتے ہیں جیسے کوئی سچا درویش ریاکاری کو رد کرتا ہے۔ ان کے نزدیک جب یہ فکری استحصال جڑ پکڑ لیتا ہے تو رٹا کلچر، تقلید اور فکری بانجھ پن کو جنم دیتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں معاشرہ اپنی تخلیقی روح کھو بیٹھتا ہے۔
کتاب "شناخت کا خاتمہ” اپنے قاری سے محض مطالعہ نہیں بلکہ تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کتاب قاری کو جھنجھوڑ کر کہتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے اندر سے مذہبی، ثقافتی، لسانی اور نظریاتی تعصبات کے خول نہ توڑے تو ہم کبھی بھی اس انسان تک نہیں پہنچ سکیں گے جو اپنی تمام شناختوں سے آزاد ہو کر صرف "انسان”بن سکےاور شاید یہی درویش کا خواب ہے۔ ایک ایسا انسان جو اپنی شناخت کے بوجھ سے نہیں، اپنی انسانیت کے نور سے پہچانا جائے۔
تاہم، ایک قاری کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ تمام شناختوں کے خاتمے کی بات اگرچہ ایک بلند فکری امکان ضروررکھتی ہے مگر اس میں ایک لطیف انسانی خلا بھی پوشیدہ ہے۔ ساری خارجی شناختیں مٹائی جا سکتی ہیں مگر کیا "انا کی شناخت” بھی نظر انداز کی جا سکتی ہے جو انسان کو ایک سمت، وابستگی اور تخلیق سے جوڑتی ہے ۔ اس شناخت سےاوپر اٹھنا عظیم روحانی تجربہ ہوگا یا یہ انسانی وجود سے انکار کے مترادف بات ہے؟ اگر ہر شناخت، ہر نظریہ، ہر قومیت اور ہر عقیدہ تحلیل ہو جائے تو کیا انسان لایعنیت کے غار میں نہیں گر جائے گا؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں درویش کی فکر ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے اور قاری کو گہرے غور و فکر پر آمادہ کرتی ہے۔
ڈاکٹر درویش کی تحریر اس فکری تاریکی میں روشنی کا ایک نیا زاویہ پیدا کرتی ہے۔ وہ قاری کو باور کراتے ہیں کہ "شناخت کا خاتمہ” مٹنے کا نہیں بلکہ ایک نئی تخلیق کا عمل ہے۔ ایسی شناخت کی تشکیل جو انسان کو انسان سے جوڑ دے، جو تفریق کے بجائے ربط اور ہم آہنگی پیدا کرے۔ یہ تصور بظاہر ژاں پال سارتر، میشل فوکو، ژاک دیرِدا اور زیگمنٹ باؤمن جیسے مفکرین کے خیالات سے گہری مماثلت رکھتا ہے، جنہوں نے اپنے مخصوص تہذیبی و تاریخی تناظر میں شناخت، طاقت کے جبر اور وجودی آزادی پر گہرے مباحث چھیڑے۔مگر درویش ان سب سے ایک بنیادی نکتے پر مختلف ہیں، وہ شناخت کے انہدام کی نہیں بلکہ احیائے انسانیت کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شناخت کا خاتمہ دراصل نفی نہیں بلکہ تطہیر ہے، ایسی تطہیر جو انسان کو ہر طاقت، نظریے اور استحصال کے حصار سے آزاد کر کے محض انسان ہونے کے مرتبے پر واپس لے آتی ہے۔
ہمارا فکری ورثہ بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ طاقت کا ہر سرچشمہ جب استحصال کا ذریعہ بن جائے تو وہ اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو درویش کی فکر کو مغربی فلسفیانہ روایت سے ممتاز کرتا ہے۔ وہاں شناخت کے انہدام کے پس منظر میں وجودی تنہائی کارفرما ہے، جب کہ درویش کے ہاں یہ عمل انسان کے اخلاقی، روحانی اور تخلیقی احیا کا استعارہ بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر درویش ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ تعصب، جمود اور پسماندگی کا منبع صرف مذہب نہیں بلکہ قوم پرستی، نسل پرستی، زبان پرستی، نظریاتی شدت پسندی، سیاسی عقیدت، طبقاتی غرور حتیٰ کہ کسی محبوب فلسفے یا شخصیت سے اندھی وابستگی بھی تعصب کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔ آج کے دور میں سماجی نظریات، ثقافتی اقدار، سیاسی نعروں اور سیکولر ازم و سائنٹزم جیسے تصورات بھی بعض ذہنوں کے لیے ایمان کا درجہ رکھتے ہیں جن پر سوال اٹھانا ان کے نزدیک گناہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم واقعی "شناخت کے خاتمے” کے مفہوم کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر نظریے، ہر عقیدے اور ہر فکری نظام کو غیر جانب دار محقق کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ اصل ترقی تب ممکن ہے جب ہم ہر مفید خیال کو قبول کر سکیں چاہے وہ مشرق سے آئے یا مغرب سے، مذہب سے ہو یا سائنس سے، فرد سے ہو یا ریاست سے۔ ترقی کا پیمانہ کسی عقیدے کی تقلید نہیں بلکہ عقل، انصاف، خیر اور انسانی بھلائی کا فروغ ہونا چاہیے۔
تعصب کی جڑیں بظاہر مذہبی رسومات میں، لیکن درحقیقت انسانی نفس کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ ایک سچے محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر جھانکے اور یہ دیکھے کہ اس کی تحقیق میں کہاں کہاں ذاتی پسند، گروہی وابستگی یا نظریاتی تعصب دخیل ہو رہا ہے۔ اگر محقق اپنی "انا اور شناخت” کو سوال کے کٹہرے میں نہیں لاتا تو وہ تحقیق کی اصل روح کو مسخ کر دیتا ہے۔ تحقیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنے قائم شدہ تصورات، جذبات اور مفادات کا احتساب کرے۔
جو شخص صرف مذہبی تعصبات سے اوپر اٹھنے پر فخر کرتا ہے مگر اپنے نظریاتی یا فکری تعصبات کو چیلنج نہیں کرتا وہ دراصل ایک نئے تعصب میں گرفتار ہے۔ سچا محقق وہ ہے جو اپنی فکر، عقیدے، گروہ، مسلک، ادارے حتیٰ کہ اپنی "ذات” کو بھی تجزیے میں لانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ سائنس اور فلسفے کا جوہر یہی ہے کہ سوال سے فرار ممکن نہیں۔
چنانچہ تحقیق وہی معتبر ہے جو ہر قسم کے تعصب سے بے نیاز ہو کر صرف حقیقت اور خیر کی تلاش کے جذبے سے کی جائے۔ اسی لیے "شناخت کا خاتمہ” محض ایک فکری دعویٰ نہیں بلکہ ایک زندہ سوال ہے کہ کیا شناخت کا خاتمہ واقعی ممکن ہے؟یا ہمیں شناخت کو ازسرِ نو انسانی بنیادوں پر تخلیق کرنا ہوگا؟ یہی سوال ڈاکٹر درویش کی فکر کو ہمیشہ تازہ رکھے گا اور یہی ان کی تحریر کو ایک مسلسل مکالمہ بنائے گا۔ ایسا مکالمہ جو ختم نہیں ہوتا بلکہ ہر قاری کے اندر ایک نیا دروازہ کھول دیتا ہے۔