تحریر: چوہدری نورالحسن گجر
8 اکتوبر 2005… پاکستان کی تاریخ کا وہ دن جب زمین لرزی، پہاڑ پھٹ گئے، بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ چند لمحوں کی ہولناکی میں ہزاروں زندگیاں ختم ہو گئیں، اور لاکھوں خواب مٹی تلے دفن ہوگئے۔ آج اس قیامت خیز سانحے کو 20 برس بیت چکے ہیں، مگر ان لمحوں کی چیخیں اب بھی وادیوں کی فضا میں سنائی دیتی ہیں۔
بالاکوٹ، مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ — سبھی وہ علاقے ہیں جنہوں نے 8 اکتوبر کی صبح اپنی آنکھوں سے تباہی کا وہ منظر دیکھا جو صدیوں کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ مائیں بچوں کو آواز دیتی رہیں، بچے والدین کو ڈھونڈتے رہے، اور زمین کے ہر جھٹکے کے ساتھ ایک نیا جنازہ اٹھتا گیا۔
بیس سال بعد بھی اگر ہم ان علاقوں کی حالتِ زار دیکھیں جن میں خاص طور پر بالاکوٹ تو محسوس ہوتا ہے کہ وقت نے زخم تو پرانے کیے، مگر بھرے نہیں۔ بحالی کے وہ منصوبے جو دعووں اور فائلوں میں مکمل دکھائے گئے، حقیقت میں آج بھی ادھورے ہیں۔
سینکڑوں اسکول بالاکوٹ میں اب تک کھلے آسمان تلے تعلیم دے رہے ہیں، اسپتال اور بی ایچ یو غیر فعال ہیں، اور بکریال سٹی — جسے متاثرین کے لیے ایک ماڈل شہر قرار دیا گیا تھا — آج بھی کاغذی منصوبہ ہی دکھائی دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اربوں روپے کہاں گئے جو متاثرین کے نام پر دنیا بھر سے آئے؟ وہ فنڈز کن کھاتوں میں جذب ہوگئے؟
ہر حکومت نے اعلانات کیے، ہر سال دعائیہ تقریبات ہوئیں، تصویری سیشن اور اخباری بیانات جاری ہوئے، مگر متاثرین کی حالت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آئی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس مسئلے پر ازخود نوٹس لیا تھا، سماجی رہنما شیراز محمود قریشی نے متاثرین کے لیے آواز بلند کی، انکی وفات کے بعد وقت کے ساتھ یہ آوازیں بھی خاموش ہو گئیں۔ اب نگاہیں موجودہ عدلیہ اور حکومت پر ہیں — شاید کوئی سن لے ان بے نام قبروں، بے آسروں، بے گھروں کی فریاد۔
ہماری قوم کا المیہ یہی ہے کہ ہم حادثوں کو یاد تو رکھتے ہیں مگر سبق نہیں سیکھتے۔ ہم سانحوں کو سالگرہوں کی طرح مناتے ہیں، مگر ان سے اصلاح کا راستہ نہیں نکالتے۔
8 اکتوبر کا دن صرف یادگار نہیں، ایک آئینہ ہے — جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امداد سے زیادہ ایمانداری کی ضرورت ہے، تقریر سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے، اور تعزیت سے زیادہ تعمیر کی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ 8 اکتوبر کو صرف ایک یادگار دن نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک ذمے داری کا دن بنایا جائے — تاکہ آنے والے وقت میں کوئی بچہ اپنی کتابوں کے ساتھ ملبے تلے دفن نہ ہو، کوئی ماںn اپنے بچے کی لاش نہ ڈھونڈے، اور کوئی قوم اپنے ضمیر کی زنجیروں میں نہ جکڑی رہے۔
آخر کب تک؟
یہ سوال آج بھی ویسا ہی زندہ ہے…
اور شاید تب تک زندہ رہے گا جب تک انصاف، تعمیر اور احساس — محض نعرے نہیں، حقیقت نہیں بن جاتے۔