Skip to content

سیلاب نے چھین لیے خواب: بونیر اور مانسہرہ کی خواتین کے سامنے صرف پانی ہی نہیں، معاشرتی دیواریں بھی کھڑی ہیں

شیئر

شیئر

تحریر: [ماہ نور مشال] مقام: بونیر/مانسہرہ تاریخ: [07 اکتوبر 2025]

بنیر/مانسہرہ: دریائے سوات اور سیلاب کے دیگر طغیانیوں کا غصہ تو اترا، لیکن بنیر اور مانسہرہ کی وادیوں میں بستی ہزاروں خواتین کی زندگیوں میں جو سیلاب آیا، وہ ابھی تک رکا نہیں۔ محکمہ شماریات کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق دونوں اضلاع میں تقریباً 50,000 سے 70,000 خواتین اور لڑکیاں براہ راست متاثر ہوئی ہیں۔ یہ سیلاب صرف گھر، کھیت اور مویشی ہی نہیں بہا کر لے گیا، بلکہ ان خواتین کی عزتِ نفس، ان کے روزگار کے ذرائع اور ان کے روشن مستقبل کے تمام خواب بھی دھندلا کر رکھ دیے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب کہ امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار ہیں، ان خواتین کے سامنے صرف تباہی ہی نہیں، بلکہ گہری معاشرتی اور جنڈرڈ پابندیاں بھی حائل ہیں۔

صحت کے بحران: ایک خاموش قتل عام

سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کی صحت سب سے زیادہ خطرے میں ہے، اور یہ بحران نظر نہ آنے والے کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔

· پانی کی قلت اور بیماریوں کا پھیلاؤ: "ہمیں وہی سیلاب کا گدلا پانی ابال کر پینا پڑ رہا ہے،” یہ کہنا ہے شازیہ کا، جو بنیر کے ایک دیہی علاقے میں اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہی ہیں۔ ہیضہ، ڈائریا اور پیٹ کے دیگر امراض بچوں اور خواتین میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ لیٹرینوں کے تباہ ہونے سے کھلے میں رفع حاجت کے باعث یہ بیماریاں اور بھی خطرناک شکل اختیار کر رہی ہیں۔ ·زچگی اور تولیدی صحت: ایک نظر انداز شدہ المیہ: حاملہ خواتین کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ ضلع بنیر میں 50 سے زائد بنیادی صحت کی اکائیاں (BIUs) یا تو جزوی طور پر تباہ ہوئی ہیں یا ان تک رسائی ناممکن ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دونوں اضلاع میں تقریباً 5,000 حاملہ خواتین فوری طبی امداد کی محتاج ہیں۔ ایسی حاملہ خواتین، جن کی ڈیلیوری کا وقت قریب ہے، کے لیے یہ وقت موت اور زندگی کے درمیان جھولنے جیسا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والی ایک مڈوائف، نسیمہ بیٹی، بتاتی ہیں، "میں نے گزشتہ ہفتے دو ایمرجنسی ڈیلیوریز کی ہیں، بجلی نہ ہونے کے برابر تھی، صرف ٹارچ کی روشنی میں۔ خدا نے چھڑایا ورنہ دونوں ماں اور بچے کی جان جا سکتی تھی۔” ·ذہنی صحت: ایک گہرا زخم: "میں رات کو آنکھ لگاتے ہی پانی کی آواز سنتی ہوں اور ڈر کر اٹھ بیٹھتی ہوں،” یہ کہنا ہے رخسانہ کا، جن کا گھر سیلاب میں بہہ گیا۔ بے گھر ہونا، اپنی زندگی کی جمع پونجی کھو دینے کا صدمہ اور غیر یقینی مستقبل خواتین اور بچوں میں شدید ذہنی دباؤ اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی وجہ بن رہا ہے، جس کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

معاشی تباہی: خودمختاری کی موت

سیلاب نے خواتین کی معاشی خودمختاری کو بری طرح نشانہ بنایا ہے، انہیں مکمل طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

· چھوٹے کاروبار کا صفایا: بنیر کی خواتین اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چنریں، شالوں اور دستکاری کی مصنوعات کو فروخت کر کے اپنا گھر چلانے کے لیے مشہور ہیں۔ سیلاب نے نہ صرف ان کا سارا مال تباہ کر دیا بلکہ ان کے سوتی دھاگے، کرین اور دیگر اوزار بھی بہا لے گئے۔ "میرے پاس اب کڑھائی کرنے کو کچھ نہیں بچا۔ میری پچیس سال کی محنت ایک لمحے میں ضائع ہو گئی،” مہر-un-نسا، ایک ماہر دستکار، آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں۔ ·مویشی: بچت بینک تباہ: دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے بکریاں، مرغیاں اور گائیں نہ صرف آمدنی بلکہ چلتی پھرتی بچت ہوتی ہیں۔ سیلاب میں ان کا بہا جانا نہ صرف ایک فوری معاشی صدمہ ہے بلکہ مستقبل کی سلامتی کے تمام راستے بند کر دینے کے مترادف ہے۔ ·کھیت اور فصلیں: خوراک کے بحران کا آغاز: وہ خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی تھیں، ان کے لیے مکئی، گندم اور سبزیوں کے کھیت تباہ ہونے کا مطلب ہے نہ صرف سال بھر کی آمدنی کا خاتمہ بلکہ خوراک کی قلت کا سامنا بھی۔

بے گھری اور حفاظت: ایک مستقل خوف

لاکھوں افراد عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں خواتین کے لیے حالات انتہائی غیر انسانی ہیں۔

· پرائیویسی کا مکمل فقدان: سکولوں یا خیمہ بستیوں میں رہ رہی خواتین کے لیے نہانے دھونے، کپڑے بدلنے یا اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے بھی کوئی پرائیویٹ جگہ میسر نہیں ہے۔ یہ ان کی بنیادی انسانی عزت پر ایک کاری ضرب ہے۔ ·حفاظتی خدشات: کھلے عام قائم کیمپوں میں رات کے اندھیرے میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے تحفظ کے شدید خدشات ہیں۔ بیت الخلاء تک جانے کا راستہ بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

مقامی آوازیں: ایک درد بھری داستان

· عابدہ بی بی (بونیر): "ہمارا گھر پانی میں ڈوب گیا۔ ہم نے اپنی بکریوں کو چھت پر باندھا تھا، لیکن پانی چھت تک آ گیا اور وہ سب ڈوب گئیں۔ وہ میری آمدنی کا واحد ذریعہ تھیں۔ اب میں اپنے بچوں کو کیسے پالوں گی؟” ·ثناء (سماجی کارکن): "ریلیف کے ڈبے میں صرف آٹا، چاول اور دال ڈالی جاتی ہے، لیکن خواتین کی مخصوص ضروریات، جیسے سینیٹری پیڈز، صابن، انڈرگیرمنٹس اور بچوں کے لیے دودھ، مکمل طور پر نظر انداز ہو رہے ہیں۔ یہ اشیا ان کی عزتِ نفس سے جڑی ہیں۔” ·سلمہ ( سوشل ورکر)

سلمہ اسماعیل ,ایسار ہیلتھ سینٹر کوٹلی پائین کی ایک پرعزم سوشل ورکر ہیں۔

حالیہ سیلاب نے بنیر کی تحصیل چغرزئی کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں کو خصوصی طور پر سخت متاثر کیا تھا۔ انہی دیہاتوں کے نام ہیں: گمبت، گمشال، اپر گمشال، میاں گانو میرا اور پختنہ میرا۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں تک پہنچنا مشکل ہے، لیکن مشکل ہی وہ چیز ہے جو سلمہ جیسے عزم رکھنے والے افراد کو روک نہیں سکتی۔

سیلاب کے بعد کی تباہی دیکھنے والی تھی۔ کئی گھر بہہ گئے تھے، کھیت تباہ ہو چکے تھے، اور لوگوں کے پاس رہنے کو محفوظ جگہیں نہیں تھیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، ان کی بنیادی ضروریات زندگی بھی خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

سلمہ اپنی ٹیم کے ساتھ ان پہاڑی راستوں پر چڑھتی اترتی انہیں دیہاتوں میں پہنچی۔ ان کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ اعداد و شمار اکٹھے کریں، بلکہ ان متاثرہ خواتین کے پاس بیٹھنا تھا، ان کی آنکھوں میں دیکھنا تھا، اور ان کی زبانی ان کے دکھ کی کہانی سننا تھا۔

وہ ان میں سے ہر ایک کے پاس گئیں۔ ایک بوڑھی ماں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے گھر کے مٹی کے بہت جانے کا درد بیان کیا۔ ایک نوجوان ماں نے اپنے بچوں کے لیے صاف پانی اور خوراک کی کمی کی کہانی سنائی۔ ایک اور خاتون نے بتایا کہ کس طرح راتوں رات پانی چڑھا آیا اور انہیں اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

۔

حکام کا موقف اور زمینی حقیقت:

ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کے ترجمان کے مطابق، "ہم تمام متاثرہ علاقوں میں ریلیف کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری ٹیمیں دور دراز کے علاقوں تک رسائی کے لیے کوشاں ہیں۔”

تاہم، زمینی حقائق اس سے کہیں مختلف ہیں۔ سلمہ جیسی سوشل ورکرز کی گواہی اس بات کی عکاس ہے کہ امداد سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہو رہی ہے۔ بہت سے دور دراز کے دیہات، جہاں تک پہنچنا مشکل ہے، ایسے ہیں جہاں اب تک کوئی ریلیف نہیں پہنچا ہے۔ وہاں کی خواتین نہ صرف سیلاب بلکہ نظر اندازی کے سمندر میں بھی ڈوبی ہوئی ہیں۔

نتیجہ اور مطالبہ:

بنیر اور مانسہرہ کی سیلاب زدہ خواتین کو ایک جامع بحالی پلان کی اشد ضرورت ہے، جس میں صرف خوراک کے ڈبے تقسیم کرنے کے بجائے ان کی مخصوص ضروریات کو مرکزی حیثیت دی جائے۔

  1. فوری اقدامات: خواتین کے لیے Hygiene Kits (سینیٹری پیڈز، صابن، ٹوتھ پیسٹ، انڈر ویئر) کی تقسیم، صاف پانی کے ذرائع کا فوری انتظام، اور Mobile Health Units کے ذریعے زچگی اور تولیدی صحت کی خدمات۔
  2. طویل المدتی حل: خواتین کو ان کے چھوٹے کاروبار دوبارہ شروع کرنے کے لیے مالیاتی امداد (مائیکرو-فنانس)، مفت مڈوائف اور پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع، اور ذہنی صحت کی کاؤنسلنگ سروسز کا قیام۔
  3. شراکت داری: حکومت کو مقامی این جی اوز اور خواتین کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ امداد صحیح مستحقین تک براہِ راست پہنچ سکے۔

یہ خواتین ہمت اور استقامت کی زندہ تصویر ہیں، لیکن ان کی ہمت کو آزمائش میں ڈالنے کی بجائے، انہیں سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں بھیک نہیں، بلکہ ان کے کھوئے ہوئے وقار اور خودمختاری کو واپس دلانے کے مواقع چاہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کی آواز سنی جائے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں