Skip to content

مولانا عبید اللہ سندھی کی فکر اور اشتراکیت کے اثرات

شیئر

شیئر

تحریر: عادل سیماب

مولانا عبید اللہ سندھی برصغیر کی سیاسی اور فکری تاریخ کا وہ باب ہیں جو اپنی انفرادیت اور جرات مندانہ سوچ کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسے عالمِ دین تھے جنہوں نے صرف مذہبی تعلیم پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی فکر کو سیاسی آزادی، سماجی انصاف اور معاشی برابری کے عملی تقاضوں کے ساتھ جوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ 1920ء کی دہائی میں سوویت روس پہنچے تو اس دور کے سب سے بڑے عالمی تجربے، یعنی کمیونزم اور سوشلزم، کا براہِ راست مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ ان کا قیام روس میں تقریباً سات ماہ رہا اور وہ سوویت قیادت کے مہمان رہے۔ ان کا یہ تجربہ ان کی فکر پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔

اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا مولانا عبید اللہ سندھی نے ولادیمیر لینن سے ملاقات کی تھی۔ معتبر تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ بعض روایات اس ملاقات کا ذکر کرتی ہیں، مگر زیادہ تر تحقیقی حوالہ جات اس بات پر متفق ہیں کہ لینن اس وقت بیماری کے باعث ملاقات کے قابل نہیں تھے۔ اس کے باوجود مولانا نے سوویت نظام اور اس کے نظریاتی ڈھانچے کو قریب سے دیکھا، سوویت حکام سے بات چیت کی اور روسی معاشرتی و سیاسی تجربے کا بغور مطالعہ کیا۔

مولانا سندھی کی فکری بنیاد اسلام کے اصولوں پر قائم تھی، بالخصوص شاہ ولی اللہ دہلوی کی تعلیمات کی طرف ان کا گہرا جھکاؤ تھا۔ وہ معاشرتی عدل، عوامی برابری اور استحصال کے خاتمے کو دین کی عملی روح سمجھتے تھے۔ روس میں قیام کے دوران انہوں نے یہ محسوس کیا کہ کمیونزم بھی سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصال کے خلاف ایک ردعمل ہے، جس کی جڑیں انسانی مساوات اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے نظریے میں پیوست ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ کمیونزم اپنی مادیت پرستی اور مذہب سے دوری کی وجہ سے اسلام کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان کے نزدیک یہ ایک وقتی اور مخصوص تاریخی حالات میں پیدا ہونے والا نظام تھا، جبکہ اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر نظامِ حیات ہے جو نہ صرف معاشی انصاف بلکہ اخلاقی اور روحانی تطہیر کو بھی شامل کرتا ہے۔

اشتراکی نظریات کے اثرات مولانا سندھی کی فکر میں نمایاں طور پر جھلکتے ہیں۔ طبقاتی تجزیہ، سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کی شدید تنقید، مزدور اور کسان کے حقوق کی وکالت اور ایک ایسے سماج کی تشکیل کا خواب جہاں ہر فرد کو اپنی محنت کا پورا پھل ملے—یہ تمام تصورات اشتراکیت کے اثرات کی یاد دلاتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی مولانا نے انہیں اسلامی تعلیمات کے تناظر میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام اور سوشلزم کے کئی اصول ایک دوسرے سے قریب ہیں، مثلاً عدل، مساوات، اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف مزاحمت۔ لیکن وہ یہ بھی باور کراتے رہے کہ اسلام میں ان اصولوں کو اخلاقی اور روحانی جواز حاصل ہے، جب کہ سوشلزم خالصتاً مادی بنیادوں پر استوار ہے۔

مولانا عبید اللہ سندھی کی فکری کاوشوں کی ایک اہم جہت یہ تھی کہ انہوں نے آزادی کی جدوجہد کو صرف سیاسی مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے معاشی اور سماجی انصاف کے ساتھ جوڑا۔ ان کے نزدیک برطانوی استعمار محض سیاسی غلبے کا نام نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے معاشی لوٹ مار کا پورا ڈھانچہ موجود تھا۔ لہٰذا آزادی کے بعد اگر عوامی طبقے کو حقیقی ریلیف دینا ہے تو نظامِ معیشت اور سیاست دونوں کو کسان اور مزدور کے مفاد میں ڈھالنا ہوگا۔

اگرچہ مولانا کی یہ کوششیں ایک جامع نظام کی تشکیل کی طرف اہم قدم تھیں، لیکن ان کی عملی سیاست اور نظریاتی منصوبے بڑے پیمانے پر نافذ نہیں ہو سکے۔ ان کے خیالات بعض علمی و فکری حلقوں میں مقبول ہوئے مگر ان پر مبنی کوئی مستحکم تحریک یا ریاست وجود میں نہ آ سکی۔ اسی لیے ان کے تجویز کردہ منشور کو بعض ناقدین “خیالی منصوبہ” قرار دیتے ہیں۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے برصغیر میں اسلام اور سوشلزم کے امتزاج پر مبنی ایک منفرد فکری روایت کی بنیاد رکھی، جس نے بعد کی کئی تحریکوں کو بالواسطہ طور پر متاثر کیا۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا سندھی کی فکر پر اشتراکیت کے اثرات واضح ہیں مگر انہوں نے انہیں اندھا دھند قبول نہیں کیا بلکہ اسلامی اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ان عناصر کو اپنایا جو سماجی انصاف، مساوات اور عوامی بھلائی کے لیے کارآمد تھے۔ وہ کمیونزم کو ایک مکمل اور حتمی حل کے بجائے ایک وقتی تجربہ سمجھتے تھے، جس میں کچھ مثبت پہلو موجود ہیں مگر اسے مذہب سے خالی ہونے کی وجہ سے ناقص بھی قرار دیتے تھے۔ یہی امتزاج ان کی فکر کو منفرد بناتا ہے: ایک ایسا وژن جو اسلام کی روح کو جدید سیاسی و معاشی چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں