تحریر: شیرافضل گوجر
دنیا کی تاریخ کو اگر ہم میڈیا کے زاویے سے دیکھیں تو یہ ایک طویل ارتقائی سفر دکھائی دیتی ہے۔ابتدائی اخبارات، مطبوعہ رسائل اور جرائد، ریڈیو کی آواز، ٹیلی ویژن کی تصاویر، اور پھر انٹرنیٹ کا دھماکہ، ہر دور میں صحافت نے نئے روپ اختیار کیے۔ لیکن آج جب ہم 2025 کے منظرنامے میں کھڑے ہیں تو صحافت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے، اور وہ یہ کہ خبر کو محض ایک "اطلاع” نہیں بلکہ ایک "پروڈکٹ” کے طور پر سمجھا اور منظم کیا جائے۔ دی نیوز پراڈکٹ الائینس کی طرف سے شائع یونے والی حالیہ رپورٹ “The State of Product Management in Journalism – 2025” اسی حقیقت کو سامنے لاتی ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ موجودہ دور میں صحافت کا سب سے بڑا امتحان صرف یہ نہیں کہ خبر کیسے اکٹھی کی جائے اور کتنی درست ہو، بلکہ یہ ہے کہ اس خبر کو کس طرح ایک پروڈکٹ کے طور پر ڈیزائن، پیک اور قاری تک پہنچایا جائے تاکہ وہ موثر، قابلِ اعتماد اور پائیدار بن سکے۔
خبر کو پروڈکٹ کے طور پر دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے باقی تمام مارکیٹ میں موجود پروڈکٹس کے ساتھ کھڑا کیا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ قاری کا وقت، توجہ اور اعتماد اب ایک ایسی کرنسی ہے جس پر بہت سی طاقتیں دعویدار ہیں۔ اس وقت ایک شخص کے سامنے صرف اخبار یا ٹی وی نہیں ہوتا بلکہ سوشل میڈیا کی پوسٹس، گیمنگ ایپس، شاپنگ پلیٹ فارمز، انٹرٹینمنٹ ویڈیوز اور بے شمار ڈیجیٹل مصروفیات موجود ہیں۔ ایسے میں صحافت کو زندہ رہنے کے لیے اپنے وجود کو ایک ایسی پروڈکٹ کی صورت میں ڈھالنا پڑتا ہے جو باقی سب سے مختلف بھی ہو اور قاری کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔
یہی وہ پس منظر ہے جس نے نیوز رومز کے اندر ایک نئے کردار کو جنم دیا ہے: پروڈکٹ مینیجر۔ یہ کردار محض ایک تکنیکی عہدہ نہیں بلکہ صحافت کے مستقبل کی بنیاد ہے۔ پروڈکٹ مینیجر وہ شخص ہے جو ادارتی ٹیم اور ٹیکنالوجی ٹیم کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے، جو قاری کے رویوں کو سمجھتا ہے، ڈیجیٹل مارکیٹ کے رجحانات پر نظر رکھتا ہے، اور بزنس ماڈلز کو ادارتی اقدار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کردار اس بات کی علامت ہے کہ صحافت اب صرف خبر دینے کا عمل نہیں رہا بلکہ خبر کو ایک مؤثر، پائیدار اور مارکیٹ میں زندہ رکھنے والا پروڈکٹ بنانے کا فن بن چکا ہے۔
رپورٹ میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ بیشتر میڈیا اداروں میں ابھی تک پروڈکٹ مینجمنٹ کے واضح ڈھانچے موجود نہیں۔ کہیں یہ رول ایڈیٹوریل ٹیم کے ساتھ جڑ جاتا ہے، کہیں اسے ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا جاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کردار غیر واضح اور فیصلے غیر مؤثر رہتے ہیں۔ یہ کمی دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میڈیا ادارے اب بھی پرانے سانچوں میں کام کر رہے ہیں، حالانکہ بدلتے ہوئے وقت میں ایک منظم پروڈکٹ ڈھانچہ ان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
اسی طرح تربیت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صحافیوں اور ایڈیٹرز کے لیے پروڈکٹ مینجمنٹ کی زبان اور اصول اجنبی ہیں۔ وہ اس دنیا سے زیادہ واقف نہیں جہاں ڈیٹا، یوزر جرنی، کنورژن ریٹس اور یوزر ریٹینشن جیسے تصورات فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔ جب ادارتی ٹیم اور پروڈکٹ ٹیم کے درمیان یہ فاصلہ بڑھتا ہے تو فیصلے ادھورے اور غیر مربوط ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ صحافیوں کو پروڈکٹ مینجمنٹ کی تربیت دی جائے تاکہ وہ اپنے مواد کو صرف ادارتی زاویے سے نہیں بلکہ یوزر ایکسپیرینس اور مارکیٹ کی حقیقتوں کے زاویے سے بھی دیکھ سکیں۔
اس رپورٹ کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ کامیاب ادارے وہی ہیں جنہوں نے قاری کو اپنی پالیسیوں اور پروڈکٹ ڈیزائن کے مرکز میں رکھا ہے۔ آج کے دور میں خبر کو صرف شائع کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے یوزر جرنی کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔ خبر کس طرح قاری تک پہنچتی ہے، کس انداز میں وہ اس کو پڑھتا یا دیکھتا ہے، اس پر کتنا وقت صرف کرتا ہے، اور اس کے بعد اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ یہ سب عوامل اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ خبر اپنی اصل غرض پوری کر پائی یا نہیں۔
چھوٹے میڈیا ادارے عام طور پر پروڈکٹ مینجمنٹ کو اضافی بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے وسائل محدود ہوتے ہیں، لیکن بڑے ادارے اسے اپنے بزنس ماڈل کا بنیادی حصہ بنا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر خبر کو پروڈکٹ کے طور پر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو قاری کا اعتماد، اشتہاری سرمایہ اور مارکیٹ میں جگہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس تناظر میں رپورٹ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ پروڈکٹ مینجمنٹ میں تنوع اور شمولیت ضروری ہے تاکہ خبری پروڈکٹس مختلف طبقوں کے لیے قابلِ رسائی ہوں اور سماج کی نمائندگی کریں۔
مگر صحافت کا موجودہ منظرنامہ چیلنجز سے بھرا ہوا ہے۔ قاری کا اعتماد مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔ جھوٹی خبروں، پروپیگنڈا اور ڈیجیٹل شور شرابے نے سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر دھندلا دی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے گوگل، فیس بک اور ایکس پر انحصار ایک طرف مواقع فراہم کرتا ہے لیکن دوسری طرف خطرات بھی بڑھاتا ہے کیونکہ ان پلیٹ فارمز کے الگورتھمز ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی خبر قاری تک پہنچے گی اور کس خبر کو دبایا جائے گا۔ اشتہارات کے روایتی ماڈل کے ٹوٹنے کے بعد آمدنی کا بحران مزید سنگین ہوگیا ہے جبکہ سبسکرپشن اور ممبرشپ کے ماڈل ابھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔
ٹیکنالوجی کا دباؤ ایک اور حقیقت ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اور الگورتھمز نے میڈیا اداروں کو نئی دوڑ میں ڈال دیا ہے جہاں تیز تر اپ ڈیٹس، درست تجزیے اور ذاتی نوعیت کی خبریں قاری کو پیش کرنا ناگزیر ہے۔ اس ماحول میں وہی ادارے آگے بڑھ سکتے ہیں جو پروڈکٹ مینجمنٹ کو محض ایک ضمنی عمل نہیں بلکہ ادارے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھیں۔
لیکن جہاں مشکلات ہیں، وہیں امکانات بھی موجود ہیں۔ اگر میڈیا ادارے اپنے قارئین کے ڈیٹا کو صحیح معنوں میں استعمال کریں تو وہ ان کی ضروریات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ ڈیٹا اینالیٹکس کے ذریعے یہ جاننا ممکن ہے کہ قاری کس موضوع میں دلچسپی لیتا ہے، وہ کتنے وقت تک کسی خبر پر رکتا ہے اور کس فارمیٹ کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ یہ معلومات پروڈکٹ ڈیزائن میں انقلاب لا سکتی ہیں۔
اسی طرح یوزر ایکسپیرینس کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور نیوز لیٹرز کو زیادہ سہل اور دوستانہ بنایا جائے تاکہ قاری دیرپا طور پر جڑا رہے۔ مخلوط بزنس ماڈلز اپنائے جائیں جن میں سبسکرپشن، ممبرشپ اور ایونٹس کو ملا کر آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کیے جائیں۔ کمیونٹی انگیجمنٹ کو بڑھایا جائے تاکہ قاری محض ایک صارف نہ رہے بلکہ ادارے کے ساتھ ایک تعلق محسوس کرے۔
مستقبل کے حوالے سے رپورٹ کا سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ پروڈکٹ مینجمنٹ اب صحافت کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ جس طرح ایڈیٹر ایک ادارے کی ادارتی سمت کا تعین کرتا ہے، اسی طرح پروڈکٹ مینیجر مستقبل کے نیوز روم میں اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ خبر کس طرح ڈیزائن کی جائے، کن پلیٹ فارمز پر پیش کی جائے، اور قاری کو کس طرح ایک طویل سفر پر ادارے کے ساتھ جوڑے رکھا جائے۔
یہاں ایک اور حقیقت بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ پروڈکٹ مینجمنٹ کا مطلب صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ وژن اور حکمتِ عملی ہے۔ اس کا اصل جوہر قاری کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے۔ اگر ادارے اس سمت میں بروقت قدم نہیں اٹھائیں گے تو نہ صرف وہ اپنے قارئین کھو بیٹھیں گے بلکہ نئے مقابلے کے میدان میں بھی پیچھے رہ جائیں گے۔
اختتام پر کہا جا سکتا ہے کہ رپورٹ “The State of Product Management in Journalism – 2025” ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صحافت اب صرف ایک سماجی خدمت یا اطلاع رسانی کا عمل نہیں بلکہ ایک پیچیدہ پروڈکٹ ہے جسے ڈیزائن، منظم اور بہتر انداز میں پیش کرنا ناگزیر ہے۔ خبر کی سچائی اپنی جگہ بنیادی قدر ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قاری کی ضروریات، ٹیکنالوجی کی رفتار اور مارکیٹ کی حقیقتوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ راستہ ہے جو مستقبل کی صحافت کو زندہ رکھے گا۔ خبر کو پروڈکٹ ماننے میں جو جھجک باقی ہے، اسے ختم کرنا ہوگا۔ صحافت کے ارتقائی سفر کا اگلا باب دراصل پروڈکٹ مینجمنٹ ہی ہے اور جو ادارے اس حقیقت کو قبول کر کے اپنی سمت درست کریں گے وہی آنے والے دور میں اپنا وجود برقرار رکھ پائیں گے۔