Skip to content

الحاد، دہریت اورعدمیت : انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ

شیئر

شیئر

وحید مراد

آج کے زمانے میں ایک گہرا فکری اور وجودی بحران انسانیت کے سامنے کھڑا ہے۔ جب زندگی کو کسی بلند غایت یا ماورائی مقصد سے خالی کردیا جائے تو وہ محض حیاتیاتی عمل یا حادثہ بن کر رہ جاتی ہے۔ انسان اپنی تاریخ، روایات اورتہذیب سے کٹ کر ایک وجودی خلاء میں پھنس جاتا ہے۔ الحاد، دہریت اور عدمیت(Nihilism) کے فلسفے زندگی سےمعنی چھین لیتے ہیں اور فرد اپنے آپ سے ہی بار بار یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں کیوں زندہ ہوں؟جب تسلی بخش جواب دستیاب نہیں ہوتا تو نفسیاتی تنہائی، اضطراب اور بعض اوقات خود کشی تک کا راستہ کھل جاتا ہے۔ اس لیے ان نظریات پر بحث محض علمی مباحثہ نہیں بلکہ انسانی بقا اور معاشرتی صحت کا مسئلہ بھی ہے۔

فلسفیانہ الحاد محض خدا پر ایمان و یقین میں تشکیک تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات کی تشریح اور انسانی زندگی کے اصول طے کرنے کے لیے کسی ماورائی ہستی کی حاجت نہیں۔ ایپی کیورس سے لے کر جدید دور تک کئی مفکرین نے یہی نظریہ پیش کیا کہ عقل، تجربہ اور سائنس ہی وہ اوزار ہیں جن کے ذریعے کائنات کو سمجھا جا سکتا ہے اور انسانی زندگی کو ڈھالا جانا چاہیے۔ تاہم تمام ملحد یکساں نہ تھے۔

کچھ ایسے تھے جنہوں نے استدلال اور مشاہدے کی بنیاد پر اپنے فلسفیانہ یا سائنسی موقف کو قائم رکھا، ذاتی زندگی میں روایت کے مثبت اخلاقی پہلوؤں کو کسی حد تک اپنائے رکھا اور مذہب کے خلاف کھلے پروپیگنڈے سے گریز کیا۔ لیکن کئی ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے مذہبی ورثے کو کلی طور پر رد کیا، اپنی عملی زندگی میں کسی ماورائی مقصد یا اخلاقی ورثے کو جگہ نہ دی اور مذہب کے خلاف کھلم کھلا تحریکیں اٹھا کر الحاد، دہریت اور عدمیت کو منظم نظریات کی صورت دی۔ یہی وہ گروہ تھا جس نے نہ صرف اپنی زندگیوں کو بے سکونی اور انتشار کا شکار بنایا بلکہ اپنے ماننے والوں کی روحوں پر بھی کرب اور بے معنویت کا بوجھ ڈال دیا۔ اس مضمون کا موضوع انہی مفکرین کے افکار اور رویّے ہیں۔

لُڈوِگ فیورباخ (Ludwig Feuerbach) نے مذہب کو انسان کا اپنا عکس قرار دیا۔ اس کے نزدیک خدا وہ تصور ہے جس میں انسان نے اپنی قوت، محبت اور کامل ہونے کی آرزو پروجیکٹ کر دی۔ فیورباخ نے مذہبی رسم و رواج سے منع کرتے ہوئے انسانی محبت اور رشتوں کو ہی مقصدِ حیات مانا۔ ڈیوڈ ہیوم (David Hume) نے مذہبی دعوؤں پر شک کرتے ہوئے کہا کہ وحی یا معجزات کا تجرباتی ثبوت دستیاب نہیں۔ ہیوم نے عملی زندگی میں مذہبی روایت کو اختیار نہ کیا مگر اپنی تحریروں میں مذہب کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے صرف شکوک اور سوالات اٹھائے۔

کارل مارکس (Karl Marx)اور فرائڈرک اینگلز (Friedrich Engels)نے مذہب کو سماجی و معاشی مناسبتوں کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ مذہب اکثر حکمران طبقے کا آلہ کار بنتا ہے۔ان کے نزدیک اصل حقیقت مادّہ ہے اور انسانی تاریخ کا محرک معاشی تعلقات اور طبقاتی کشمکش ہے۔انہوں نے ذاتی طور پر مذہبی ورثے سے کٹ کر زندگی گزاری تاہم خود زندگی کو مکمل بے مقصد نہیں چھوڑا بلکہ طبقاتی جدوجہد اور اجتماعی آزادی میں معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔

نطشے (Friedrich Nietzsche)نے اعلان کیا کہ اب انسانی دنیا میں خدا کا تصور غیر ضروری ہوچکا اور انسان کو اپنی اقدار خود تخلیق کرنے کا چیلنج دیا؛ اس کے نظریات نے آزادی اور خود اعتمادی کو اجاگر کیا مگر اسی جدوجہد میں اسے شدید تنہائی اور ذاتی اذیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell) نے مذہب کو خوف اور توہمات کا منبع قرار دیا اور اخلاقی اقدار کو انسانی عقل و فلاح پر استوار دیکھنے کی وکالت کی۔ اس نے کہا کہ سائنس نے کائنات کو سمجھنے کے بہتر طریقے فراہم کر دیے ہیں اس لیے مذہب غیرضروری ہو گیا ہے۔

سارتر (Jean-Paul Sartre) نے کہا کہ انسان پہلے موجود ہوتا ہے اور پھر اپنے اعمال سے اپنی ماہیت تراشتا ہے؛ اس طرح آزادی اور ذمہ داری ہی معنی اور مقصد کو جنم دیتی ہیں۔ سارتر نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی مذہبی رسوم کو ترک کیا اور کہا کہ زندگی کا پہلے سے کوئی طے شدہ مقصد نہیں۔الحادی فکر کے جدید نمایندے ریچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins) اور کرسٹوفر ہچنز (Christopher Hitchens) نے مذہب کو انسانی ذہن کی زنجیر اور ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور سائنس و منطق کو معنویت کا نیا محور بنانا چاہا۔ دونوں نے مذہب کو ہر سطح پر انسانی آزادی اور وقار کے خلاف قرار دیتےہوئے اپنی ذاتی زندگی میں بھی رسومات کو مکمل طور پر ترک کیا۔

الحاد و دہریت نے جہاں انسانی ذہن اور نفس کو کھلی چھوٹ دی وہیں گہرے وجودی سوالات بھی جنم دیے کہ جب کوئی ماورائی مقصد باقی نہ رہے تو آخر انسان زندہ کیوں رہے؟ کامیو نے اس بے معنویت (absurdity) کو تسلیم کیا مگر خودکشی کو حل ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کو بغاوت اور مزاحمت کے ذریعے ہی ایک نیا مفہوم دیا جا سکتا ہے۔ سارتر نے آزادی کو انسان کا سب سے بڑا بوجھ بھی کہا اور اسی کو بامقصد زندگی کا سرچشمہ بھی قرار دیا۔ مارکس اور اینگلز نے طبقاتی جدوجہد کو اور نطشے نے خود تخلیق (self creation) کو انسانی وجود میں معنی کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ لیکن عملی زندگی میں یہ سب نظریاتی نسخے ہر ایک کے لیے کارگر ثابت نہ ہو سکے؛ بہت سے مفکر شدید نفسیاتی دباؤ، بیماری اور تنہائی میں مبتلا ہو گئے اور کچھ کی زندگی کے آخری ایام اس قدر الم ناک ثابت ہوئے کہ ان کا انجام خود ان کے نظریات کی کمزوری پر گواہ بن گیا۔

بہت سے مفکرین جنہوں نے مذہب کو رد کیا، اپنی عملی زندگی میں پھر بھی کسی نہ کسی صورت میں معنی اور ذمہ داری کا سہارا ڈھونڈتے رہے، چاہے وہ ادب ہو، سیاست، سائنسی تحقیق یا انسانیت کی خدمت۔ انہوں نے مذہب کو بطورِ کائناتی و آسمانی حقیقت یکسر نامنظور کیا مگر اس کے اخلاقی ڈھانچے کی کچھ جھلکیاں برقرار رکھیں اور انسانی ہمدردی، سماجی انصاف اور فلاحِ عام کو زندگی کا مرکز بنایا۔ یہ سب متبادل معنویتیں وقتی طور پر انسان کو جینے کا حوصلہ ضرور دیتی رہیں لیکن اصل سوال یہ باقی رہا کہ کیا یہ سہارا واقعی دیرپا اور روح کی گہرائی تک تسکین دینے والا ہے یا نہیں۔

انسان میں بقا کی جبلّت (survival instinct) فطری طور پر خودکشی سے روکتی ہے۔ دوستیاں، خاندان، معاشرتی رشتے اور دل بہلانے کی سرگرمیاں اکثر افراد کو زندگی سے وابستہ رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کئی ملحد مفکرین نے بھی انسانی تعلقات، فنونِ لطیفہ، علمی جستجو یا سماجی جدوجہد کو اپنا سہارا بنایا۔ لیکن جہاں یہ سہارے ناکافی ثابت ہوئے وہاں خالی پن نے اندرونی شکست و ریخت کو جنم دیا اور زندگی کے بوجھ کو ناقابلِ برداشت بنا دیا۔

بعض لوگ جنہوں نے مذہب سے مکمل انکار کیا وہ ایک گہری بے معنویت اور تنہائی میں جا گرے ۔ تاریخ میں ایسے کئی نمایاں نام ملتے ہیں جو اس کیفیت کو برداشت نہ کر سکے: ارنسٹ ہیمنگوے، ورجینیا وولف، سلویا پلاتھ، ڈیویڈ فوسٹر والیس اور کرٹ کوبائن جیسے ادیب اور فنکار جنہوں نے شدید نفسیاتی دباؤ اور ذاتی بحران کے نتیجے میں اپنی جانیں ختم کر لیں۔ اسی طرح فلسفہ اور سائنس کے میدانوں میں بولٹزمان، ایلن ٹورنگ، پال ایہرن فیسٹ اور کئی دیگر مفکر ایسے بھی ہی جوذہنی دباؤ کا شکار ہو کر المناک انجام تک پہنچے۔ یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ محض نظریاتی گفت و شنید انسان کو زندگی کے معنی سے نہیں جوڑ سکتی؛ اس کے لیے عملی، نفسیاتی، ایمانی اور سماجی سہارا ضروری ہے۔

یہاں ایک نکتہ خاص طور پر قابلِ غور ہے کہ فلسفہ اور نظریات اپنی جگہ دلائل و استدلال پیش کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ایمان، امید اور معنویت کی ضرورت برقرار رہتی ہے۔ عقل بھی اپنی ابتدا میں بعض مسلمات پر قائم ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ ایمان اور عقل بالکل الگ الگ دنیاؤں میں رہتے ہیں درست نہیں۔ فلسفے کی تاریخ بتاتی ہے کہ کانٹ، ہیگل، کیرکیگارڈ، سارتر اور کامیو سب نے اپنے اپنے انداز میں اس رشتے کو تسلیم کیا یا اس پر بحث کی۔ کسی نے ایمان کو علمی بنیاد کہا، کسی نے عقل کی حدود مان کر عملی عقلیت کی ضرورت بیان کی۔

الحاد، دہریت اور عدمیت کے نظریات محض ایک فکری بحث نہیں بلکہ سکونِ زندگی کے لیے ایک عملی چیلنج ہیں۔ انسان کی زندگی تبھی متوازن رہ سکتی ہے جب اس کے پاس ایک مضبوط مقصد اور پائیدار معنویت ہو۔ اگر مذہب کی جگہ صرف سرد منطق یا محض مادیت رکھ دی جائے تو اندر کا خلا اپنی منفی نفسیاتی اور سماجی صورتوں کے ساتھ ابھرتا ہے۔ اس کمی کو فن، ادب، سیاست، سائنسی تحقیق یا سماجی خدمت سے پُر کرنے کی کوشش یقیناً ایک ممکنہ راستہ ہے مگر یہ ہر فرد کے لیے یکساں طور پر کامیاب ثابت نہیں ہوتا؛ بعض اوقات یہ محرومی مزید گہری بے سمتی میں بدل جاتی ہے۔

مسئلہ محض دلیل کے اثبات یا انکار کا نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تحفظ اور معنویت کا ہے۔ تاریخ کے وہ تلخ واقعات اور مشہور مفکرین و فنکاروں کی ذاتی کرب کی داستانیں اسی حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ زندگی کو سہارا دینے کے لیے ایک گہرا، فکری، روحانی اور سماجی ڈھانچہ ناگزیر ہے۔ جب زندگی کے اندر مقصد، اخلاقی سمت اور انسانی رشتے کمزور ہو جائیں تو دکھ، بے قراری اور تباہی جنم لیتی ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ الحاد اور عدمیت محض ذہنی موشگافیاں نہیں بلکہ انسان کی سوچ اور زندگی کو ویران کرنے والے رویے ہیں۔ ان کے پیچھے چلنے والا فرد اپنے وجود کے خالی پن اور لاحاصل پن میں الجھ کر نہ خود سکون پا سکتا ہے نہ دوسروں کو سکون دے سکتا ہے۔ دہریت اور الحاد کا یہی فکری جال زی جنریشن کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ اگر ان کے سامنے ایمان، یقین اور تخلیقی اقدار نہ رکھی گئیں تو یہ توانائی خودکشی، دہشت گردی یا سامراجی مفادات کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ مایوسی کو فلسفے کا نام دے کر انسان کو اس کے خوابوں، سعیِ پیہم اور امید سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ جو لوگ فلسفے سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی قوت اس کا ایمان، اقدار اور جدوجہد پر یقین ہے۔ اگر یہ چھین لیا جائے تو وہ محض ایک تھکا ہوا تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان فکری رویوں کا دوٹوک رد اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے واضح اور بامقصد متبادل پیش کرنا ناگزیر ہے۔ انسان کو ایسا مقصد چاہیے جو عقل کو مطمئن کرے اور دل و روح کو سہارا دے۔ یہی اصل ذمہ داری ہمارے تعلیمی، فکری اور سماجی اداروں پر ہے کہ وہ نوجوانوں کو صرف سوالوں میں الجھانے کے بجائے ایک باوقار، بھرپور اور بامقصد زندگی کی طرف رہنمائی کریں تاکہ وہ گمراہی کے اس دھندلکے سے نکل کر روشنی کی دنیا میں قدم رکھ سکیں اور یہ یقین کر سکیں کہ ان کی کوشش رائیگاں نہیں بلکہ تاریخ کی اصل حرکت انہی کے عزم اور ایمان سے آگے بڑھتی ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں