Skip to content

محافظ نہیں، پاسبان — حرمین شریفین اور امت مسلمہ

شیئر

شیئر

اللہ تعالیٰ اصل محافظ ہے، امت کو بس ایمان، غیرت اور اتحاد کے ساتھ پاسبانی کا شرف حاصل کرنا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کو کئی حلقے اس نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان کے حصے میں آ گئی ہے۔ بلاشبہ یہ بات ہمارے لیے اعزاز ہے، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ حرمین کے محافظ خود ربِ کائنات ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
«إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ»
یعنی اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ خود اپنے دین اور مقدسات کی حفاظت کرے گا۔

تاریخ کے اوراق بھی گواہ ہیں کہ ابرہہ کا لشکر خانہ کعبہ پر چڑھ دوڑا تو ابابیلوں کے ذریعے نیست و نابود کر دیا گیا۔ نورالدین زنگی کے دور میں روضہ اطہر کی جاسوسی کرنے والے یہودی بھی ذلت کا شکار ہوئے۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مقدساتِ اسلامیہ کی حفاظت کا اصل انتظام آسمانی ہے۔

البتہ پاسبانی کا شرف امت مسلمہ کے حصے میں آتا ہے۔ یہ صرف عسکری معاہدوں یا فوجی طاقت سے ممکن نہیں بلکہ غیرتِ ایمانی، اتحاد اور وفاداری کا تقاضا ہے۔ کعبہ اور مسجد نبوی سے عقیدت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کرتی ہے۔ جب امت ایک اللہ، ایک رسولؐ، ایک قرآن اور ایک ملت کے تصور پر متحد ہوتی ہے تو دنیا انہیں پاسبانِ حرمین تسلیم کرتی ہے۔

پاکستان–سعودی دفاعی معاہدہ اسی تناظر میں امید اور وقار کی علامت ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ایمان، اتحاد اور غیرت کو زندہ رکھتے ہیں جو حرمین کی پاسبانی کے اہل بنائے؟ اگر ہاں تو یہ سعادت بار بار ہماری جھولی میں ڈالی جائے گی۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے —
نیل کے ساحل سے لیکر تابِ خاک کا شغر۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں