اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وقت قیمتی ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ کم ہے اسے ضائع مت کرو لیکن میرا ماننا ہے کہ کہ وقت قیمتی اور کم ہونے کے ساتھ ”طاقتور“ بھی ہوتا ہے۔ اسکی طاقت کو سمجھنا ہمیں کسی حد تک زندگی اور ہمارے حالات کی سمجھ دے سکتا ہے۔
میرے پاس کئی ایسے لوگ تھراپی کے لیے آتے ہیں جنکا برا وقت چل رہا ہوتا ہے۔ کم و بیش میرے سبھی کلائنٹ یا تو وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتے یا پھر مجھ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ میں انہیں وقت کے قیمتی ہونے کا احساس دلاؤں اور وہ فوراً سے اپنی ساری بری عادتیں چھوڑ کر اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ لیکن انہیں جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ دراصل وقت کی طاقت ہے جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی!
ہمیں لوگوں کا نہیں بلکہ وقت کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے، کیونکہ جس کے ساتھ وقت کی دھارا ہو وہ چڑھتا سورج ہوتا ہے اور چڑھتے سورج کو یقیناً بچاریوں کی کمی نہیں ہوتی!
آج سے سات سال پہلے مجھے وقت کی طاقت کا تب اندازہ ہوا جب میری زندگی میں کچھ بہت اہم واقعات گھٹے اور انہیں سمجھنے کے لیے میں نے ہر علم، ہر مذہب کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ مجھے نفسیات کے علاوہ مختلف مذاہب اور روحانیت سے منسلک نظریات کو پڑھنے کا حد درجہ شوق ہے، میں نے وقت کو سمجھنے کے لیے ان سب کا سہارا لیا۔ اس آرٹیکل میں اپنی محدود سمجھ سے اپنی تحقیق کا ایک چھوٹا سا حصہ شیئر کروں گی۔
ایک بات تو طے ہے کہ جو بھی وقت کی گہری سمجھ رکھے گا وہ انقلاب لائے گا، جیسا کہ آئن اسٹائن کی تھیوریز نے ہمیں وقت کی ایک نئی سمجھ دی اور فزکس کی دنیا میں انقلاب آیا۔ جو انسان وقت کی کروٹ کو سمجھتا ہے وہ آنے والے انقلاب اور بدلاؤ کو پرکھ لیتا ہے۔ انسان جس وقت اور جن حالات میں دنیا میں جنم لیتا ہے اسکی آنے والی زندگی پر اسکا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماحول اور حالات ہماری زندگی میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
وقت کی ایک خاص بات ہے کہ یہ کبھی سب کے لیے ایک سا نہیں ہوتا۔ آئن اسٹائن سے پہلے کے سائنسدان وقت کو ایک سا (constant) مانتے تھے لیکن آئن اسٹائن کے مشاہدے اور پیش کردہ نظریات سے یہ بات سامنے آئی کہ وقت مبصر کے لیےنسبتی (relative) ہے، اگرچہ یہ سب انہوں نے فزکس کے سیاق و سباق میں کہا تھا تاہم اسے ہم نفسیات اور روزمرہ کی زندگی میں اپلائی کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
آپ نے ایک بات پر شاید کبھی غور کیا ہو کہ اکثر آپ کا کوئی دوست یا رشتے دار کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو تو وہ پکڑا نہیں جاتا اور خوب ترقی کرتا ہے، لیکن اسکی دیکھا دیکھی آپ ویسا کریں تو فوراً سے پکڑے جاتے ہیں، اور آپ کی سمجھ نہیں آتا کہ آپ پر کیوں یہ عذاب نازل ہوا جب کہ اس دوست/رشتہ دار کے پاس اتنی چھوٹ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ دونوں کے لیے وقت مختلف طرح سے کام کررہا ہو، جیسا کہ میں نے کہا کہ وقت سب کے لیے ایک سا نہیں!
یا پھر آپ اور آپکا دوست ایک سی محنت کرتے ہو لیکن وقت آپ کے حق میں نہیں بلکہ اسکے حق میں بہتر ثابت ہوتا ہے، تو کیا وقت کی آپ سے ذاتی دشمنی ہے؟ یقیناً نہیں! تو پھر ایسا کیوں؟ اسکا جواب آرٹیکل کے آخر میں ہے (جس سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں)۔
وقت کی طاقت پر سب سے زیادہ تبصرہ ہندو فلسفہ میں کیا گیا ہے، ہندو دانشور وقت کی طاقت اور اہمیت کو سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے اس سے منسلک ایک دیوتا بھی بنایا جسے وہ ”مہاکال“ (The Great Time/Death) کہتے ہیں اور مہاکال کا کام ہے تباہ کرنا، ختم کرنا، کیونکہ سمے کا حقیقی کام ختم کرنا ہی ہے۔
ہندو دانشوروں نے ہر کام کرنے سے پہلے ”مہورت“ (مبارک وقت) کو نکالنے پر زور دیا، جس میں جوتش (Vedic astrology ) کا استعمال ہوتا ہے، کیونکہ انکا ماننا ہے کہ آپ کا کام یا صلاحیت چاہے کتنی ہی بہتر کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ صحیح وقت پر سامنے نہیں آئیں تو انکے ذریعے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ جوتش کا ایک اور مقصد اس بات کو بھی جاننا ہوتا ہے کہ جس وقت آپ نے دنیا میں جنم لیا تو اس وقت کے حساب سے آپ کی زندگی کا مرکزی خیال (theme) کیا رہے گا (یہ کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط یہ ایک الگ بحث ہے)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وقت برا چل رہا ہو توکس طرح سے اس وقت کو گزارنا ممکن ہوسکتا ہے؟
اسکا جواب ہر انسان کے لیے مختلف ہوسکتا ہے، لیکن ایک بات یاد رکھیے گا کہ برا وقت کبھی بھی آپ کو تکلیف دینے نہیں آتا، وقت کی آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ ہر بات میں معنی تلاش کرتا ہے، یونہی برے وقت میں بھی معنی تلاش کرنا بہت ضروری ہے، یہ نفسیاتی اعتبار سے بہت کارآمد مشق ہوتی ہے جب آپ اپنے برے وقت یا پھر اپنے ساتھ ہونے والے برے حادثات کا تجزیہ (analysis) کرکے اس میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کونسے سبق یا ہنر سکھانے آیا یہ جاننے میں دلچسپی دکھاتے ہیں تو آپ کی سمجھ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور ایک سکون بھی میسر ہوتا ہے کیونکہ دماغ کا فعل ہے معنی اور جواب تلاشنا۔
جب مجھے برے وقت کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت مجھ میں اتنا شعور نہیں تھا کہ میں اس میں معنی تلاش کرتی، باقی کے انسانوں کی طرح مجھے بھی فوری آرام اور سکون چاہیے تھا لیکن آج جب غور کرتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ساری مشکلات میری نشونما کے لیے تھیں، جب تک ہم اپنے سبق سیکھ نہیں لیتے، خود کو زندگی گزارنے کے ضروری ہنر سکھا نہیں لیتے، وقت بار بار ہمیں وہیں لاکر پٹختا ہے جہاں سے ہم باہر آنا چاہتے ہیں۔ میں جتنی آسانی چاہتی ، وقت اتنا ہی کٹھن ہوتا جاتا۔ جب میں نے وقت کی طاقت کے آگے ہتھیار ڈالے اور ہر ایک مرحلہ سے مکمل طور پر گزری تو ہی مجھے اس اذیت سے نجات نصیب ہوئی، آج جب بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اس مکمل دورانیے میں کئی ایسے ہنر ، سبق اور فلسفے سیکھے جو زندگی کو بہتر کرنے کے لیے ضروری تھے!
ہم نفسیات کے اعتبار سے اکثر کہتے ہیں کہ آپ چاہے کتنا ہی فرار حاصل کرنے کی کوشش کرلیں لیکن جب تک آپ مکمل طور پر اپنے تجربات سے منسلک تکلیف دہ جذبات اور حقیقت کو پراسس نہیں کرلیتے آپ کا دماغ کبھی آگے نہیں بڑھتا، آپ وہیں پھنسے رہتے ہیں۔
جب تک آپ اپنے سارے ارتقائی مراحل(developmental tasks) پورے نہیں کرلیتے آپ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرسکتے، آپ کو بار بار وہیں کھینچ کر لایا جاتا ہے تاکہ آپ اپنا سبق سیکھ سکیں لیکن اکثر لوگ اپنا سبق سیکھنے کی بجائے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اور اسی کو مشہور سائیکاٹرسٹ اور سائیکوانالسٹ کارل یونگ ”شیڈو“ کہتے ہیں، یعنی کہ آپ کا سایہ، آپ کی غلطیاں خامیاں جنہیں آپ دیکھ نہیں پارہے بلکل ویسے جیسے آپ اپنا سایہ نہیں دیکھ سکتے۔
جب وقت (حالات) ٹھان لے کہ اس نے آپ کو کچھ ہنر سکھانے ہیں، کچھ ارتقائی مراحل طے کروانے ہیں تو اسکی طاقت کے آگے کسی کی نہیں چلتی (اس عمل کو ہندو دانشور ’پراربدھ کرما‘ کہتے ہیں جن کو مکمل کیے بغیر آگے بڑھنا نا ممکن ہوتا ہے) نہ آپ کی چاہ، نہ کوئی دعا اور نہ ہی آپ کا رونا دھونا کہ آپ کے ساتھ غلط ہورہا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ کوئی آپ کے درد کو سمجھ نہیں رہا اور ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ آپ کے اور انکے لیے وقت مختلف ہوتا ہے۔
وقت کی آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، وقت کا مقصد آپ کو نشو نما کروانا ہے، آپ کا برا وقت ہمیشہ آپ کی غلطی نہیں ہوتا بلکہ آپ کے آباء واجداد کے فیصلے اور انکی عادتیں بھی اس بات کا فیصلہ کرتی ہیں کہ آپ کی زندگی کا رخ کیسا ہوگا۔ ہمارے بڑوں کے فیصلوں کا خامیازعہ ہم بھگتے ہیں، وقت ہمیں موقع دیتا ہے ہمارے آباء و اجداد کی غلطیاں سدھارنے کا، خاص کر برا وقت!
(حال ہی میں ایک ایسے کیس کو سمجھنے کا موقع ملا جہاں والد کے فیصلوں اور رویوں کی سزا بیٹا کاٹ رہا ہے۔ بیٹے کا بہت برا وقت چل رہا ہے اور جب میں نے مکمل کہانی سنی تو معلوم ہوا کہ باپ دادا کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں میرے وہ کلائنٹ، لیکن غلطیاں سدھارنی بھی انہی کو ہے)۔
اس لیے برے وقت میں خاموشی سے جو بھی ذرائع میسر ہیں انکا فائدہ اٹھا کر اپنے ارتقائی مراحل (developmental tasks) کو پورا کریں، سب سے بڑھ کر اپنے آباء واجداد کی تاریخ، انکی عادات اور سوچ کے عمل (thought process) کا جائزہ لیں اور جہاں آپ کو لگتا ہے کہ نشونما نہیں ہوسکی، اس خلا کو بھرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک اس دوست کی بات ہے جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر بھی برے وقت کی پہنچ سے دور ہے تو اس کا شاید اچھا وقت چل رہا ہے اسے اس بات کا اندازہ نہیں کہ یہ چھوٹ محدود مدت کے لیے ہوگی، کیونکہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور اپنا پسندیدہ کام یعنی کہ تباہی اور خاتمہ کبھی نہیں چھوڑتا، اب تباہی چاہے آپ کا وہ دوست سہے یا پھر اسکی آنے والی نسلیں— البتہ تباہی تو اٹل ہے