Skip to content

ماحولیاتی تبدیلی اور سیلاب، کیا اسکی بڑی وجہ جنگلات اور باغات کی کٹائی ہے؟

شیئر

شیئر

تحریر: شہناز یوسفزئی

خیبر پختونخوا میں جنگلات کی کٹائی اور باغات میں مسلسل کمی صوبے بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی شدت کو بڑھا رہی ہے۔ گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں باغات اور زرعی رقبے میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زرعی اراضی کو رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔

درخت فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ یہ آبی بخارات کے ذریعے قدرتی ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں اور ہیٹ ویوز کے دوران درجہ حرارت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ باغات بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرکے سیلاب کے خطرات کم کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ زمین کو کٹاؤ سے محفوظ اور فضا کو آلودگی سے پاک رکھتے ہیں۔

بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور پگھلتے ہوئے گلیشیئرز تباہ کن بارشوں اور سیلاب کا باعث بن رہے ہیں، جس کے نتیجے میں زمین کا کٹاؤ اور سمندر کی سطح میں اضافہ جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف حیاتیاتی تنوع بلکہ انسانی بقا کے لیے بھی خطرہ ہے۔ باغات لگانے اور ان کی دیکھ بھال سے گرین ہاؤس گیسوں کے مضر اثرات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق، ربیع اور خریف کی فصلوں کے زیرِ کاشت رقبے میں اضافے کے باوجود پھلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پھلوں کی نشوونما کے اہم مراحل میں ناموافق موسم ہے۔ بارش کے انداز میں تبدیلی اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت باغات کی پیداوار کے لیے بڑا چیلنج بن کر سامنے آ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی اصل وجہ قدرتی نظام میں انسانی مداخلت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے صنعتی ترقی سے بے شمار فوائد تو حاصل کیے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں قدرتی توازن بگڑ گیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہو رہا ہے جو خود ان تبدیلیوں کے ذمہ دار نہیں مگر ان کے اثرات بھگتنے پر مجبور ہیں۔ ان ممالک کے پاس نہ وسائل ہیں، نہ ٹیکنالوجی، نہ ہی مؤثر منصوبہ بندی۔ مزید افسوس ناک امر یہ ہے کہ متاثرہ ممالک، بالخصوص پاکستان، میں جنگلات اور باغات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ جہاں کبھی سینکڑوں کنال زمین باغات سے ڈھکی ہوتی تھی، آج وہ رہائشی کالونیوں اور تجارتی پلازوں میں بدل چکی ہے۔ بہت سے باغ مالکان فوری مالی فوائد کے لیے درخت کاٹ کر تعمیرات کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان حالات میں خیبر پختونخوا حکومت کا "بلین ٹری سونامی منصوبہ” ایک مثبت قدم تھا، جس کے تحت صوبے میں کروڑوں درخت لگائے گئے۔ اس منصوبے نے نہ صرف ماحولیاتی بہتری کے لیے بنیاد فراہم کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی پہچان بنی۔ تاہم اس کے ثمرات کو پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لگائے گئے درختوں کی دیکھ بھال کی جائے اور ان کے ساتھ ساتھ موجودہ جنگلات کو کٹاؤ سے بچایا جائے۔ صرف نئے درخت لگانا کافی نہیں، پرانے جنگلات کا تحفظ بھی لازمی ہے۔

اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے محکمہ زراعت نے مزید اقدامات بھی کیے ہیں، جن میں کسانوں کو مفت پودے اور ادویات فراہم کرنا اور زمین کی تیاری میں مدد شامل ہے۔ تاہم مالکان کو زمین پر تعمیرات سے روکنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔

خیبر پختونخوا پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول ایکٹ 2021 نافذ ہے۔ اس کا مقصد شہری پھیلاؤ کو منظم کرنا، زمین کے استعمال کو باقاعدہ طریقے سے کنٹرول کرنا اور ماسٹر پلاننگ کو فروغ دینا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت صوبائی لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم کی گئی ہے جو وزیرِاعلیٰ کی سربراہی میں کام کرتی ہے۔ ضلعی سطح پر کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں جو زمین کے زرعی، رہائشی اور تجارتی استعمال کی نگرانی کرتی ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 10 ملین روپے تک جرمانہ اور تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہزارہ ڈویژن میں مانسہرہ اور ہری پور میں متعدد خلاف ورزیاں سامنے آئیں، جہاں جرمانے اور ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ تاہم اس قانون پر ابھی تک پورے صوبے میں مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

حکومت کو باغات اور جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیئیں۔ جنگلات کی کٹائی روکنے اور زرعی زمین پر غیر قانونی تعمیرات پر پابندی کے لیے لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول ایکٹ 2021 پر سختی سے عمل درآمد ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا میں باغات اور جنگلات میں کمی صرف مقامی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے ماحولیاتی مستقبل کے لیے ایک خطرناک انتباہ ہے۔ فوری طور پر جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے، اراضی کے قوانین پر عمل درآمد کرنے اور پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جنگلات اور باغات کا تحفظ نہ صرف پھلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچنے اور آنے والی نسلوں کی بقا کی ضمانت بھی ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں