تحریر: لقمان ھزاروی
پاکستان انڈیا جنگ کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پر سفارتی محاذ پر بڑی کامیابیاں اپنے نام کیں۔ صدر ٹرمپ کے امریکہ کے صدر بننے سے قبل بین الاقوامی میڈیا پر تبصرے کیے جارہے تھے کہ ٹرمپ کا صدر بننا پاکستان کے حق میں نہ ہوگا اور بھارت کے لیے ٹرمپ کا صدر بننا ایک تاریخ رقم کرے گا۔دنیا نے دیکھا کہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے انڈیا کو دھول چٹائی تو خطے میں طاقت کا توازن بدلا۔بھارت جو کہ خود کو خطے کا ٹائیگر کہتا تھا اسے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ جو ممالک بھارت کو ہر وقت سپورٹ کرتے تھے ان میں سے بھی کچھ نیوٹرل رہنے پر مجبور ہوئے جبکہ پاکستان جس کو خطے میں تنہائی کا شکار بنایا جا رہا تھا اس سے ہاتھ ملانے کی راہیں ہموار ہوئیں۔اسی جنگ کا کرشمہ تھا کہ ہر سو پاکستان کے گیت گائے گئے اور پاکستانی مقتدرہ نے بھی اسے کیش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
پاکستان سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے تاریخی رہے ہیں اور کٹھن وقت میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی تھاما ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات رہے ہیں اور ان تعلقات کی اہمیت سے دونوں ممالک واقف بھی ہیں۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب عالمی سطح پر پاکستان پر پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے پاکستان کو تیل ادھار فراہم کیا اور معاشی بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔1969 یمن کے باغیوں نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستان نے اپنی فضائیہ بھیجی، جس نے سعودی عرب کے دفاع میں کردار ادا کیا۔1979جب شدت پسندوں نے مسجد الحرام پر قبضے کی کوشش کی تو پاکستانی کمانڈوز نے سعودی فورسز کے ساتھ مل کر آپریشن میں حصہ لیا اور قبضے کی کوشش کو ناکام بنایا۔
اب بھی مشرق وسطی کے حالات نے تعلقات کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ مشرق وسطی کے عرب ممالک جو امریکہ کی سیکورٹی پر انحصار کرتے تھے اور امریکہ کے ساتھ معاشی و دفاعی معاہدے کرتے تھے، اب قطر پر کیے گئے اسرائیلی حملے نے امریکہ کے منافقانہ کردار کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور عرب ممالک بھی امریکہ کے چنگل سے آزادی کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔دو روز قبل او آئی سی اجلاس میں اسلامی ممالک کے سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی اور خطابات کیے۔ اجلاس کے اعلامیہ میں بین السطور گریٹر اسرائیل منصوبہ کو کسی صورت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ہر ملک کی خودمختاری کے دفاع اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
سوشل میڈیا کے صارفین جن کی توقعات اس اجلاس میں اسرائیل پر فوری حملہ یا پابندی کی تھی۔ ظاہر ہے کہ اتنی عجلت میں یہ فیصلہ عرب ممالک کے لیے ممکن تو تھا لیکن مشکل ضرور تھا۔ اسرائیل جس کی پشت پر امریکہ اور یورپی ممالک کھڑے ہیں جن کے بغیر اسرائیل اپنا دفاع تک نہیں کر سکتا اور انہیں ممالک کے عرب ممالک کے ساتھ بھی معاشی و دیگر معاہدے ہیں ایسے میں ان سب سے انحراف عرب ممالک کو معاشی طور پر بھی زیرو کرتے اور فوجی قوت بننے کے امکانات بھی ختم کرتے۔ ایسے میں حکمت عملی سے آگے بڑھنے کے لیے کچھ توقف اختیار کیا گیا۔وہ کہتے ہیں نا کہ ایک لاٹھی سے سب کو ہانکنا نقصان کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔اس لیے عرب ممالک نے بہترین حکمت عملی اپنائی اور اجلاس کے اگلے روز ہی عملی قدم اٹھا کر سعودی عرب اور پاکستان نے تاریخ رقم کی، اپنے دفاع اور قیام امن کے لیے ایک تاریخی معاہدہ کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک اہم دفاعی معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے گا تو وہ حملہ دونوں ممالک پر سمجھا جائے گا۔
جس میں شنید ہے کہ دیگر ممالک بھی شامل ہونگے۔ یہ نیٹو طرز کا اتحاد بنے گا۔ سعودی عرب جو کہ عرب ممالک اور اسلامی ممالک کا لیڈر ہے اس نے قطر کو بھی مزید نقصان سے بچایا اور خود پہل کرکے دوسرے ممالک کے لیے بھی راہ ہموار کی۔
اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں، قطر پر حملہ، اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے عرب ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ امریکہ پر مکمل اعتماد نہ کریں، بلکہ مزید علاقائی دفاعی شراکت داریوں کی طرف بڑھیں۔سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اس معاہدے کو اس لیے کر رہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی شراکت داروں کی فہرست میں توازن پیدا کرے، اور علاقائی خطرات کے تناظر میں خود کو مزید مستحکم کرے۔یہ دفاعی معاہدے نہ صرف دونوں ممالک کی سیکیورٹی کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں امن کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب کی حیثیت اسلامی دنیا کے مرکز کی ہے تو دوسری طرف پاکستان ایٹمی طاقت اور ایک بڑی فوجی قوت ہے۔ ان دونوں کا تعاون مسلم دنیا کو عالمی سطح پر ایک مضبوط پیغام دیتا ہے۔
یہ تاریخی دفاعی معاہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی برادری پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔ امریکہ، اسرائیل، بھارت اور ایران کا اس معاہدے پر ردعمل اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کرے گا۔پاکستان جو کہ صرف جنوبی ایشیا کی ایک ایٹمی طاقت نہیں بلکہ عرب ممالک کے دفاع کا بھی حصہ بن گیا ہے۔اس معاہدے سے پاکستان کی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت اس معاہدے کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے گا، کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات معاشی نوعیت کے ہیں اور بہت کلوز رہے ہیں۔اسی طرح اس معاہدے میں امریکہ کے لیے یہ پیغام ہے کہ سعودی عرب اب اپنی سلامتی کے لیے صرف ایک طاقت پر انحصار نہیں کرے گا۔اس سے امریکہ پاکستان تعلقات میں بھی نئی پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ایران بھی اس معاہدے کو خوشی سے قبول نہیں کرے گا اور وہ اپنی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ پس پردہ رہ کر کرتا رہے گا۔اسرائیل کے لیے اس معاہدے میں منفی اشارے ہی چمک رہے ہیں۔اسرائیل جو کہ اس خطے میں جو مرضی چاہتا وہ کرتا تھا اب اس کے لیے یہ معاہدہ رکاوٹ بنے گا۔اسرائیل کا سامنا اب ایک طاقت ور اور ایٹمی قوت کے حامل ملک سے ہوگا۔اس معاہدے سے اسرائیل کا یہ خدشہ بڑھے گا کہ کہیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کسی نہ کسی صورت میں سعودی عرب کی سیکیورٹی کے لیے بروئے کار آجائے۔ اس لیے اسرائیل اس معاہدے کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ ویسے بھی کچھ مبصرین اس معاہدے کے بعد سعودی عرب کو بھی ایٹمی قوت قرار دے رہے ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ایک گیم چینجر ثابت ہوگا ۔ یہ نہ صرف دونوں ممالک کی سلامتی کو مضبوط بنائے گا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی تبدیل کرے گا۔یہ معاہدہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مشرق وسطی میں ایک نیا سکیورٹی اتحاد ابھر رہا ہے، ایسا اتحاد جو امریکا پر کم اور خطے کی اپنی قوتوں پر زیادہ انحصار کرے گا۔ اور اس نئے اتحاد کے مرکز میں پاکستان کھڑا ہے۔