Skip to content

مغرب میں تارکین وطن کے خلاف تحریکوں کا دور: کیا مسلہ نسلی تعصب کا ہے یا کچھ اور۔۔۔؟

شیئر

شیئر

تحریر:شیرافضل گوجر

ہجرت انسانی تاریخ کا سب سے پرانا اور فطری عمل ہے۔ انسان ہمیشہ امن، روزگار، آزادی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا ہے۔ لیکن ہجرت محض جسمانی نقل مکانی نہیں بلکہ یہ تہذیبوں کے ملاپ، افکار کے تبادلے اور انسانی شعور کی توسیع کا نام ہے۔ آج بھی دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں اسی اختلاط کی دین ہیں۔ تاہم اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں ہم ایک نئے دور میں داخل ہوئے ہیں جہاں مغرب، خصوصاً یورپ اور برطانیہ میں، تارکین وطن کے خلاف نفرت باقاعدہ سیاسی تحریکوں اور عوامی مظاہروں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں میں لندن میں ڈیڑھ لاکھ افراد نے تارکین وطن کے خلاف مظاہرہ کیا، جس میں ایلن مسک جیسے عالمی سرمایہ کار اور رائے ساز نے بھی خطاب کیا۔ یہ محض ایک احتجاجی ریلی نہیں بلکہ اس بات کا عندیہ ہے کہ آنے والے بیس برسوں میں تارکین وطن کے خلاف فضا مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب صرف مغربی نسل پرستی یا اسلاموفوبیا کا نتیجہ ہے، یا اس کے پس پردہ ہمارے اپنے رویے بھی شامل ہیں؟

یورپ میں نفرت کی جڑیں: تاریخ سے حال تک

یورپ میں تارکین وطن کے خلاف نفرت کوئی نئی بات نہیں۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں جب جنوبی ایشیا، افریقہ اور کیریبین سے لوگ یورپ آئے تو ان کے خلاف نسلی امتیاز کی آوازیں بلند ہوئیں۔ لیکن اس وقت یہ آوازیں محدود اور غیر منظم تھیں۔

1990 کی دہائی میں جب مشرقی یورپ سے لوگ مغرب کی طرف آئے تو اقتصادی مقابلے کا خوف پیدا ہوا۔ پھر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خدشات نے مسلمانوں کو براہِ راست نشانے پر لا کھڑا کیا۔ اس دوران افغانستان، عراق اور شام کی جنگوں سے لاکھوں پناہ گزین یورپ پہنچے۔ یوں یورپی معاشروں میں یہ تاثر جڑ پکڑنے لگا کہ تارکین وطن نہ صرف ان کے وسائل پر بوجھ ہیں بلکہ ان کی تہذیبی اقدار کے لیے خطرہ بھی ہیں۔

آج دائیں بازو کی جماعتیں جرمنی، فرانس، اٹلی اور انگلستان میں اسی خوف کو بنیاد بنا کر اقتدار کے قریب پہنچ رہی ہیں۔ لیکن یہ کہانی یک طرفہ نہیں۔ مغربی معاشروں کی بے چینی میں ہمارے اپنے رویوں کا حصہ بھی کم نہیں۔

ہماری کمیونٹی کا سماجی چہرہ

پاکستانی و کشمیری کمیونٹی انگلستان میں تقریباً سولہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اگر بھارتی اور بنگلہ دیشی کمیونٹیز کو شامل کر لیں تو یہ تعداد بیس لاکھ سے بھی زائد ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری شناخت اس بڑے ڈھانچے میں کیا ہے؟ بدقسمتی سے ہماری پہچان مثبت سے زیادہ منفی استعاروں سے جڑی ہوئی ہے۔

پچاس ساٹھ سال یورپ میں گزارنے کے باوجود بھی ہماری کمیونٹی برادریوں اور فرقوں کے حصار میں قید ہے۔ مساجد اور عبادت گاہیں جو تربیتِ اخلاق اور اجتماعی خیر کا مرکز ہونی چاہئیں، وہ فرقہ وارانہ نفرت کے گڑھ بن گئی ہیں۔

آج بھی ہماری مساجد اور مدارس میں بچوں کو وہی پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس میں سائنس یا عالمی اقدار کی جگہ تنگ نظری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ نجاست کی فہرست میں کتا، خنزیر اور کافر ایک ساتھ درج ہیں۔ اس طرح انسانی برابری کا تصور ذہن سے مٹا دیا جاتا ہے۔

برقعے، جبے اور داڑھیاں ذاتی عبادت کی علامت بننے کے بجائے اجتماعی شناخت کا بیانیہ اختیار کر گئی ہیں۔ ایک برطانوی مصنفہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب وہ اپنے شہر میں برقع پوش خواتین اور جبہ بردار مردوں کو دیکھتی ہے جو غیر محرم سے بات نہیں کرتے، تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں کی انسانی تہذیب برباد ہو رہی ہے۔

ہم پاکستان کے سیاسی جھگڑے یورپ ،امریکہ ،عرب اور دیگر ایشیائی ممالک کے گلی محلوں میں لڑ رہے ہیں،پاکستان کے سیاسی لیڈرز کے فین کلبز نے میزبان ممالک کے شہریوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ہر جمعے کو مساجد کے باہر غیر قانونی پارکنگ پورے محلے کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ عید میلاد، محرم اور دیگر مواقع پر جلوس شور و غوغا اور ٹریفک جام کا باعث بنتے ہیں۔ نوجوان نسل میں تعلیم کا رجحان کم اور گینگز، منشیات فروشی اور فراڈ کا رجحان زیادہ ہے۔ سڑکوں پر کچرا پھینکنا، ٹریفک سگنل توڑنا اور غنڈہ گردی کو معمول سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب رویے صرف انگریزوں کے لیے نہیں بلکہ ہماری اپنی مہذب کمیونٹی کے لیے بھی باعثِ شرمندگی ہیں۔

انسان اور سماج کا رشتہ

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی مہذب سماج میں انسان کے قابلِ قبول ہونے کے کیا تقاضے ہیں؟

افلاطون شہری کی پہچان کو اس کی کردار سازی اور انصاف پسندی سے جوڑتا ہے۔ ارسطو نے انسان کو "سماجی حیوان” کہا جس کی فطرت ہی اجتماعی زندگی ہے۔ کانٹ کے نزدیک اخلاقیات وہ ہے جو انسان دوسروں کے لیے اسی طرح چاہے جیسے اپنے لیے چاہتا ہے۔ ہیگل کے مطابق آزادی صرف اسی وقت ممکن ہے جب فرد اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کو بھی تسلیم کرے۔

اگر ہم اپنے رویوں کو ان فلسفیانہ معیارات پر پرکھیں تو ہماری تصویر دھندلی اور بدنما دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے مغربی جمہوری معاشروں سے حقوق تو لے لیے لیکن ذمہ داریاں قبول نہیں کیں۔ ہم نے آزادی تو مانگی لیکن نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری نہ کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اجتماعی شناخت شور، آلودگی، بدنظمی اور شدت پسندی کے ساتھ جڑ گئی ہے۔ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ممالک جو ہمارے جھوٹے ،سچے اسائلم کے دعووں کی بنیاد پر ایک عرصہ سے ہمیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دے رہے ہیں وہ تارکین وطن کے لیے اپنی پالیسز تبدیل کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟۔کیا ہم اپنے محلے،گاوں یا علاقے میں کسی بھی مہاجر یا تارک وطن کے ایسے رویے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جن کا اظہار ہم آئے روز سیاست اور عقیدے کی آڑھ میں ان ممالک میں کر رہے ہیں؟

مستقبل کا منظرنامہ

اگر یہی روش برقرار رہی تو اگلے بیس برسوں میں یورپ میں دائیں بازو کی جماعتیں مزید مضبوط ہوں گی۔ تارکین وطن کے خلاف قوانین سخت ہوں گے۔ شہریت اور مستقل رہائش کے حقوق محدود ہوں گے۔ ہماری آنے والی نسلیں اجنبیت اور نفرت کے حصار میں پروان چڑھیں گی۔ یہ صورتِ حال محض نسل پرستی یا اسلاموفوبیا کا نتیجہ نہیں ہوگی بلکہ ہمارے اپنے رویے بھی اس میں برابر کے شریک ہوں گے۔
مہذب سماج میں رہنے کے اپنے تقاضے ہیں۔

اگر ہم اس مستقبل سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کمیونٹی اور اپنی اولاد کو نئے ڈھانچے میں ڈھالنا ہوگا۔

قانون کی پاسداری بنیادی شرط ہے۔ ٹریفک سگنل، پارکنگ، ٹیکس اور انشورنس محض قانونی نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں۔ فرقہ وارانہ نصاب کو چھوڑ کر بچوں کو جدید تعلیم، تنقیدی سوچ اور عالمی اقدار سکھانا ضروری ہے۔ میزبان معاشرے کی زبان، ثقافت اور اقدار کا احترام کریں۔ اپنی ثقافت کو محفوظ رکھیں لیکن اسے دوسروں پر مسلط نہ کریں۔ مساجد اور تنظیموں کو نفرت کے نہیں بلکہ سماجی خدمت اور تربیت کے مراکز بنائیں۔ اپنی اولاد کو یہ سکھائیں کہ وہ صرف پاکستانی یا کشمیری نہیں بلکہ ایک عالمی شہری ہیں، جن کی ذمہ داری پوری انسانیت کے ساتھ ہے۔

سماجی شناخت کے باب میں انسان کی اصل پہچان اس کا رویہ ہے۔ اگر ہمارے رویے دوسروں کے لیے ناقابلِ قبول ہیں تو پھر ہمیں نسل پرستی یا اسلاموفوبیا کی شکایت کا حق نہیں۔ ایک مہذب سماج میں رہنے کے لیے لازم ہے کہ ہم خود مہذب ہوں۔ ورنہ ہماری ہجرت ہمارے لیے آزادی نہیں بلکہ ایک نئے قید خانے میں بدل جائے گی۔

ہجرت کا اصل مقصد بہتر زندگی ہے، لیکن بہتر زندگی اسی کو ملتی ہے جو دوسروں کی زندگی بہتر بنانے میں حصہ دار ہو۔ اگر ہم اس فلسفے کو سمجھ لیں تو نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کا ہر کونا ہمارے لیے گھر بن سکتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں