تحریر: ڈاکٹر عزیز الرحمان
گزشتہ روز پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ پاکستان ایک بار پھر اپنی پوری قوت اور وقار کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت سے واپس آ گیا ہے۔ یمن کی جنگ کے دوران جب پاکستان کی پارلیمان میں سعودی عرب کو فوجی تعاون دینے پر بحث ہوئی تھی اور بعض تلخ تبصرے کئے گئے تھے، اُس وقت پاکستان نے کھل کر سعودی عرب کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے پاکستان پر اپنے دفاعی انحصار کو کم کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کیں۔ اسی دوران میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں سعودی تعلقات میں سرد مہری، عمران خان کی حکومت کے دوران ایران و ترکی کی طرف جھکاؤ، اور پھر پی ٹی آئی دور میں بعض دیگر پالیسی اختلافات نے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ دوسری جانب سعودی عرب کو ابراہمک اکورڈ میں شامل ہونے کے فوائد جتلانے کے لئے امریکی و اسرائیلی لابیاں سرگرم رہیں۔ سعودی عرب کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ خلیجی ممالک کو ابراہمک اکورڈ میں شامل ہونے کے بعد ایران کے ممکنہ خطرات کے مقابلے میں امریکی اور اسرائیلی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ پاکستان کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج تھا، کیونکہ اگر سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات مزید کمزور ہوتے تو اس خلا کو اسرائیل کے ساتھ بھارت آسانی سے پر کر سکتا تھا جو خطے میں پہلے ہی اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہا تھا۔
غزہ کی حالیہ جنگ نے پورے خطے کی سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے بعد فی الحال کسی عرب ملک کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ناممکن ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں سعودی عرب کے لیے بہترین راستہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کی ازسرنو ترتیب اور اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہی تھا۔ خطے کے ممالک کو یہ حقیقت سمجھ آ گئی ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں امریکی دفاعی انشورنس اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس کا فوری حل متبادل دفاعی شراکت داری قائم کرنا ہی ہے۔
پاکستان نے حالیہ دنوں میں بھارت کے ساتھ محدود جنگ میں اپنی عسکری صلاحیت کا جس طرح مظاہرہ کیا ہے، اس نے نہ صرف خطے میں پاکستان کی عسکری قوت کو منوایا ہے بلکہ سعودی عرب کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان آج بھی ایک قابلِ اعتماد دفاعی حصار فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کے دوران ایران کے حق میں پاکستان کے متوازن اور جرات مندانہ موقف نے تہران کو بھی واضح اشارہ دیا ہے کہ اس کا حقیقی دوست کون ہے اور دشمن کون۔ اسی پس منظر میں سعودی عرب اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ ایک تاریخی اقدام ہے، جس سے صرف اسرائیل اور اس کے حامی ممالک، خصوصاً بھارت، کو تشویش ہو سکتی ہے، جبکہ خطے کے دیگر ممالک بشمول ایران کے لیے یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
البتہ پاکستان کے لیے اصل امتحان داخلی سطح پر ہے۔ دفاعی اور سفارتی محاذ پر یہ کامیابیاں اُس وقت زیادہ معنی خیز ہوں گی جب ملک کے اندر سیاسی محاذ آرائی اور ادارہ جاتی کشمکش ختم ہو اور ریاست غریب طبقات کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ خارجی محاذ پر حاصل کردہ کامیابیاں اسی وقت دیرپا اثر ڈال سکتی ہیں جب داخلی سطح پر سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کو یقینی بنایا جائے۔