Skip to content

فریش گریجویٹس ان مارکٹ

شیئر

شیئر

تحریر: رحاب رزاق

ڈگری مکمل کرنے کے بعد لکھنے کا بہت کم موقع ملتا ہے، عملی زندگی اتنا مصروف کر دیتی ہے کہ کبھی وقت نہیں ملتا يا شاید اتنا کچھ ہوتا ہے کہ الفاظ نہیں ملتے لکھنے کو۔۔ خیر بی-ایس مکمل ہوئے ۲ ماہ ہوئے ہوں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کالج سے نکلے ہوئے سالوں بیت چکے۔۔جب ہم نے بی-ایس کا آخری پرچہ دیا تو يوں لگا تھا کہ جیسے صدیوں کا سفر تمام ہوا۔۔۔ لیکن اس وقت میں اور بہت سے خوف آپکو گھیر لیتے ہیں کہ آپ اپنی خوشی منانا ہی بھول جاتے۔۔
مستقبل کا خوف، پیپر ختم، ڈگری بھی کچھ وقت میں ہاتھ میں ہو گی، لیکن پھر کیا؟ کہاں جانا ہے؟ کیا کریں گے کچھ سوچا؟ آگے پڑھنا ہے؟ ابھی تو پڑھائی کی تھوڑا سکون کرتے۔
آپکے اندر کے سوالات کا طوفان تھمتا نہیں ہے کہ ہر دوسرا ملنے والا آپ سے پوچھ رہا ہوتا ہے ۔ ہاں بھائی ختم پڑھائی؟ آگے کیا پلینز ہیں؟ اور آپ اسے غور سے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرتے ہو، شاید اسے میں جانتا ہوں۔ خیر ہر دوسرا تیسرا آپ کی زندگی میں زبردستی گھسنا چاہتا ہے، مفت کے مشورے دیے جاتا ہے اور آپ کی پریشانی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالنا فرض سمجھتا ہے۔ آخر میں یہ کہہ کر اٹھ جاتا کہ ہم تو آپکا بھلا ہی چاہتے ہیں باقی آپکی مرضی۔ وہ فریش گریجویٹ جو ۴ سالوں سے بڑے بڑے خواب دیکھ رہا کہ ایک بار گریجویٹ ہو جاؤں پھر تو دنیا فتح کروں گا، آج چند کاغذ کے ٹکڑے فائل میں جمع کرتا نظر آتا، دل ہی دل میں سوچ رہا کہ خیر ہے فلحال کہیں اٹک جاؤں باقی پلینز پے کام ساتھ ساتھ کرتے ہیں۔ ہنسی آتی ہے اِس بےبس سوچ پر۔ سی-وی بنائی، چند کاپیاں کی اور جگہ جگہ اپنی قیمت لگانے نکل گے، گلی محلے کے اداروں سے لے کر دور دور تک کوئی جگہ نہیں چھوڑتا، بڑے خواب دیکھنے والے "فریش گریجویٹ آخر کار مارکیٹ میں”۔
سوچا نہیں ہوتا کہ کالج سے باہر کی دنیا اتنی عجیب اور ظالم ہے لیکن سچائی دیکھتے ہی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں۔ کسی بھی ادارے میں داخل ہوتے ہی پہلا سوال یہ ہوتا کتنے سال کا تجربہ ہے؟؟ ارد گرد دیکھ کر دل تو چاہتا ہے کہ کہا جائے ” اتنے سالوں کے تجربے ہوتے تو اس ادارے میں قدم نہ رکھتے” پر خیر ہمیں تو کچھ وقت کے لیے اٹکنا ہے تو خاموش اور دھیمے لہجے میں، ‘میں فریش گریجویٹ ہوں ‘ ۔ پھر جو کچھ ادارے والے کرتے ہیں اس پر آپکو آپکی ۴ سال کی تعلیم پر افسوس ہی ہوتا ہے۔ چاہے آپ نے تعلیم کے ساتھ دس اداروں میں بھی کام کر رکھا ہے پھر بھی آپ ‘فریش گریجویٹ’ ہیں اور آپکی تنخوا ادارے کے کسی بھی ملازم سے کم تہہ ہوتی ہے، کیوں کہ آپ فریش گریجویٹ اور آپکو کچھ نہیں آتا۔
جہاں مارکیٹ نے سر جوڑ رکھے ہوتے ہیں فریش لوگو کو ضائع کرنے کے لیے، وہیں ہمیں تھوڑی تھوڑی مزاحمت فریش بچوں کی جانب سے بھی دکھائی دیتی ہے۔ اشتہار: فلاں ادارے کو انگریزی کا ٹیچر درکار ہے، ۲ سال کا تجربہ لازم ہے۔ نئے لوگ آئے ہیں مارکیٹ میں لیکن ٹیچر نہیں مل رہا۔۔وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ فریش گریجویٹ اپنے ادارے سے کچھ پڑھ کر آئے ہیں اور انکو اُنکی تعلیم کے مطابق مزدوری نہیں مل رہی اور ادارے کو ٹیچر نہیں مل رہا۔ پھر ایسے ہی کچھ عرصے میں معلوم ہوتا ہے کہ ادارے کو مشکل سے ٹیچر مل چکا ہے، وجہ ان نئے لوگو کی تعلیم ہے کہ ادارے کو کیسے سیدھی قطار میں لانا ہے۔ پھر ادارے آپکو ۲ سال کا تجربہ خود ہی ۲ ماہ میں دے ہی دیں گے۔ یہاں یہ فریش لوگ اگر خود کو ضائع نہ ہونے دیں اور تھوڑی سی مزاحمت دکھائیں تو چیزیں بہتر ہو سکتی ہیں۔
نوکری مل گئی، اٹک بھی گے، اب کیا ؟ بس اسی لیے اتنے سال تعلیم حاصل کی تھی کہ چند ہزار کما سکیں؟ کہاں گئے بڑے بڑے خواب؟ آگے کی پڑھائی؟ افسری؟ بس ختم؟ اب نوکری شروع کی ہے تو انکے ڈرامے بھی جھیلنے ہیں، ان سب سے فرصت ملے گی تو آگے کا کچھ سوچا جائے گا نا۔
بڑا سوچنے کے لیے آپکو کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی اس لیے یہ بہت آسان ہے، لیکن کچھ بڑا کرنے کے لیے آپ کو وقت، محنت، پیسہ اور سب سے ضروری موٹیویشن چاہیے ہوتی جو کہ آپ میں کام پے لگتے ہیں ختم ہونے لگتی ہے، کیوں کہ آپ کا دماغ ایک روٹین کا عادی ہو چکا ہوتا ہے، آپکو لگتا ہے کہ یہی کام میری زندگی ہے، اور آپ اپنی فریش گریجویٹ والی فریشنیس، طاقت، محنت کا جذبہ سب کچھ کھو دیتے ہو اور آخر میں آپ بھی اسی تماشے کا حصہ بن جاتے ہو جو صدیوں سے جاری ہے۔
ماسوائے اُن لوگو کے جو خواب دیکھ کر چھوڑ نہیں دیتے، خوابوں کو حاصل کر کے ہی سکون سے بیٹھتے ہیں، یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو سب سے منفرد ہوتے اور اپنی legacy چھوڑ جاتے ہیں۔
اگر آپ بھی کسی ادارے سے وابستہ ہیں اور ایک بار ضرور نظر دوڑائیں آپ پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں۔ آپ کے ادارے نے آپکو کیا دیا ہے؟ یا سب کچھ صرف آپ سے لیا ہے؟ ۔۔ سوچیں اور اپنی بچی ہوئے طاقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور بہتری میں لگائیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں