Skip to content

 حکومتی سطح پر آٹزم کے شکاربچوں کےلۓ سہولیات کا فقدان

شیئر

شیئر

 آٹزم کے شکار بچوں کی ماؤں کی مشکلات

فریحہ رحمان

 آٹزم کے شکار بچوں کی ماؤں کی زندگی اور مسائل ایک جیسے نہیں ہوتے ان کی تھکاوٹ بھی عام سی نہیں ہوتی جو آرام کرنے سے اتر جائے، بھلا روح کی تھکاوٹ بھی آرام کرنے سے اتر سکتی ہے وہ بھی اس حال میں کہ آرام و سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہ ہو، یہ الفاظ ہیں ایک ایسی ماں کے جو آٹزم جیسے مرض میں مبتلا ایک    بیٹےکی ماں ہے جس کی زندگی کا ہر لمحہ اس کے بیٹے کے لئے وقف ہے۔

  بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی ماؤں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہےجن میں آٹزم کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں ۔آٹزم جسے آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر بھی کیا جاتا ہے ایک ایسی  پیچیدہ کیفیت کا نام ہے جس میں باہمی رابطوں اور رویوں سے متعلق مسائل شامل ہیں۔  آٹزم کے شکار لوگوں کو باہمی روابط میں مسائل پیش آ تے  ہیں انھیں یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہی کہ دوسرے لوگ کیا سوچتے ہیں ۔ جس کے باعٖث ان کے لئے الفاط ،اشاروں ،تاثرات اور لمس کے ذریعے اظہار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

  مجھے آج بھی یاد ہے  ایک اورایسی ماں جو  اپنےنفیس لباس، ہلکے میک اپ اور کالے لمبے بالوں میں  ایک خوش مزاج اور چلبلی سی لڑکی لگ رہی تھی۔ جو ہر وقت ابتدائی درجے کے بچوں کو کھیل کود اور دیگر تعلیمی مشاغل کے ذریعےسے سکھانے میں مشغول رہتی ۔اسے دیکھنے سے یہ اندازہ بھی نہ ہوتا کہ وہ ایک بیوہ ہے اور اپنے دامن میں ڈھروں دکھ سمیٹے بیٹھی ہے۔شاہدسارا دن ہشاش بشاش رہنا اس کےپیشے کا حصہ تھا ویسے بھی ابتدائی درجے کی استانی سے ہر وقت چاک و چوبن اور ہشاش بشاش  رہنے کی ہی توقع کی جاتی ہے۔

وہ ہمیشہ  اپنے تیسری جماعت میں پڑھنے والے  بیٹے  کو سہارا دے کرکلاس میں چھوڑ کر آتی، اس گمان سے کہ شاہد وقتی کمزوری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائے گی۔ پھریہ کمزوری دن بدن بڑھتی چلی گئی اور ایک دن ڈاکٹر نے آٹزم  کی تشخیص کی۔ فکر اور بڑھنے لگی جب زندگی کے واحد سہارے کی ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور پھرایک دن وہ ویل چہر پر تھا۔

کتنا مشکل ہوتا ہے ایک بڑے بچے کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، اس کو نہلانا دھولانا،اس کی ہر ضرورت پوری کرنا اور  پھر ہر وقت اس بات کا خوف  بھی کہ اگر ہم نہ ہوئے تو کون اس کا خیال رکھے گا۔ کتنا مشکل ہے گھر کے ساتھ ساتھ باہر کی زمہ داریاں سنبھالنا، معاشرے کے سخت  رویوں کو سہنا اورپھر اپنا بھرم بھی قائم رکھنا۔

بدقسمتی سے مغربی معاشرے میں جس قدر اسپیشل بچوں کا خیال رکھا جاتا ہے ہمارے ہاں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ہمارے ہاں اگر کسی معذور،بیمار یا آٹزم کا شکار بچے کی پیدائش ہو جائے تو ماں کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔معا شرتی رویئے،خصوصی بچوں کے لئے تعلیمی اداروں کے نہ ہونے اور ایسے بچوں کے لئے سہولتوں کے فقدان نےان ماؤں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

آگائی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل

ہر آٹزم بچے کی علامات  اورضروریات  مختلف ہوتے ہیں۔آج سے کچھ عرصہ پہلے آٹزم کے بارے میں آگائی بالکل نہیں تھی۔لوگ آٹزم کے شکار ہر بچےکا ایک ہی طرح سے علاج کرتے اورآپس کے مشوروں سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ آٹزم کوسمجھنے، اُس کے بارے میں جاننے اور آٹسٹک بچّے کی تعلیم وتربیت کے عمل میں تیزی آئی لیکن اب بھی بہت سے لوگ لاعلم ہیں اس زمن میں سہولیات تو دور کی بات شعور کا بھی فقدان ہے آٹزم سے متاثر افراد کو سیکھنے کے عمل میں دشواری ہو سکتی ہے۔ ان کی اہلیت غیر متوازن ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، انہیں بات چیت یا اظہارکرنے میں توپریشانی ہو سکتی ہے لیکن توقع کے برعکس یہ مصوری،فن ریاضی یا کسی بھی اور چیز مین اچھے ہو سکتے ہیں ان بچوں کو سمجھ کر ان کی بیترین نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

 ڈاکٹر ثناء خان بھی ایک آٹسٹک بچے کی ایسی ماں ہیں جن کا بیٹا ان کے لئے مشل راہ بنا اور انھوں نے ایسے بچوں کے لئے پاکستان آٹزم ہیلتھ سائنسز اینڈ ریسرچ فائنڈیشن کی بنیاد رکھی ۔وہ اپنے بیٹے کو اکیلے سنبھالتی ہیں۔جس کی عمر اب تقریبا 22 برس ہے  ان کی خواہش ہے کہ کاش وہ کئی برس پہلے آٹزم کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتیں تو اور زیادہ اچھے ظریقے سے اپنے بیٹے کا خیاؒل رکھتیں ۔اب وہ اپنی جیسی ماؤں کی مدد اپنے ادارے کے دریعے کر رہی ہیں۔ان کے لئے ایک بڑے بچے کو سنبھالنا، خاص طور پر سفر کے دوران بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن وہ بہت محنت سے اپنی زمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

اعدادوشمارکیا کہتے ہیں

ادارۂ شماریات ، پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جسمانی و ذہنی معذور افراد کی کُل تعداد 371,833ہے، جن میں سے آزاد جمّوں وکشمیر میں 13,329، بلوچستان میں 10,495، گلگت بلتستان میں 7,886، اسلام آباد میں 6,706، خیبر پختون خوا میں 11,6491، پنجاب میں 1,47,539 اور سندھ میں 69,387 افراد موجود ہیں ۔ یعنی پاکستان میں لاکھوں مائیں ایسی ہیں، جنہوں نے اسپیشل نیڈز بچّے پیدا کیے۔یہ وہ مائیں ہیں جو اپنے قد سے بڑے  بچوں کو سنبھالتی ہیں ان کے پمپرز بدلتی  ہیں۔  ان کو نہلاتی ہیں۔ان کی اپنی زندگی  ان کے لئے نہیں۔

پمپرز کے حوالے سے ایک  16 سے 17 سال کے آٹزم کے شکار بچے کی والدہ کہتی ہیں کہ ہر دو سے تین دن بعد  وہ نو پمپرز کا پیکٹ   2000 میں خریدتی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اگرحکومت ان جیسی ماؤں کے لئے کچھ  کرے نہ کرے  کم ازکم ان محدود آمدنی والے والدین کے لئے پمپرز ہی کچھ سستے کردے۔

آٹزم کی علامات کا جاننا والدین کے لئے ضروری ہے۔

عام طور پر آٹزم کی علامات 3 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتی ہیں۔جبکہ کچھ بچوں میں اس کی علامات پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہوجاتی ہیں۔اگر کوئی بچہ آٹزم کا شکار ہو تویا تو بالکل بول نہیں سکتا،یا ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط الفاظ میں بولتا ہے،نظریں نہ ملانا، لوگوں سے میل ملاپ میں جھجھک، خیالات کے اظہار میں دشواری محسوس کرنا کچھ آلات یا اشیا مثلاً بجلی کے سوئچ، پنکھے اور گھومنے والے کھلونوں کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ ہونا،بہت سے ذائقوں کو پسند نہ کرنا اور خود اپنی حفاظت نہ کر سکنا وغیرہ جیسی علامات ہوتی ہیں۔ اگر بچوں میں اس طرح کی علامات ظاہر ہوں تو والدین کو اس کے علاج کی طرف توجہ دینا چاہے۔

 آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے آٹزم کے علاج اور تشخیص میں مشکلات

 آٹزم کی ٹھوس بنیادوں پر تشخیص ایک مشکل امر ہے۔  والدین کے لئے آٹزم کی اقسام کوسمجھنا ضروری ہے ۔بروقت تشخیص اور علاج کے ان بچوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔والدین خصوصا  دہیی علاقوں سے تعلق رکھنے والے  ہر بچے کو ذہنی معذور سمجھتے ہیں اور علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی جو لوگ باشعور ہیں وہ مہنگی تھراپیز کروا نہیں سکتے بہت کم لوگ جو معاشی طور پر کچھ مستحکم ہوں علاج کرواتے ہیں۔  ہر علاقے میں  سہولیات  نہ ہونا بھی والدین کے لئے مشکلات کا سبب ہے۔

آٹزم سپیکٹرم سنڈروم کے علاج کا مقصد بچے کی سماجی اور مواصلاتی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہوتا ہے۔ علاج کے اختیارات میں رویے اور مواصلات کے علاج، تعلیمی علاج، خاندانی علاج اور دوائیں بھی شامل ہو سکتی ہیںبر وقت توجہ آٹزم کے شکار بچے کی نشوونما اور رویوں میں نمایاں بہتری لا ئی جاسکتی ہے۔ ۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں