تحریر: ڈاکٹر عادل سیماب
پیرس کمیون انیسویں صدی کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور منفرد واقعہ ہے جس نے ریاست، عوامی حاکمیت اور آزادی کے مفاہیم پر گہری بحث کو جنم دیا۔ 1871 میں فرانس کو پروشیا کے ہاتھوں شکست کے بعد پیرس ایک شدید بحران کا شکار تھا۔ شکست خوردہ حکومت عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکی اور سیاسی و سماجی بے چینی نے بغاوت کی صورت اختیار کی۔ اس ماحول میں پیرس کے شہریوں، مزدوروں اور نیشنل گارڈ نے ایک نئے طرزِ حکمرانی کا تجربہ کیا جسے پیرس کمیون کہا جاتا ہے۔ اس کمیون نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ریاستی جبر سے آزادی محض انارکی پیدا کرتی ہے یا پھر اجتماعی نظم و ضبط پر مبنی ایک متبادل ڈھانچہ بھی ممکن ہے۔
کمیون کا قیام اس امر کی علامت تھا کہ عوام اپنے نمائندے خود منتخب کر کے اور انہیں جواب دہ بنا کر ایک ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں جس میں طاقت کا سرچشمہ براہِ راست شہری ہوں۔ نمائندوں کو کسی بھی وقت واپس بلانے کا حق عوام کے پاس ہونا اس بات کا اظہار تھا کہ اختیار کا اصل مالک فرد یا کوئی اشرافیہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ ہے۔ اسی اصول پر کمیون نے اپنے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔
کمیون کی عملی کاوشیں اپنے وقت کے لحاظ سے نہایت انقلابی تھیں۔ معاشی میدان میں محنت کشوں کو بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے، فیکٹریوں کو مزدوروں کی انجمنوں کے سپرد کرنے اور بے روزگار شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کرایوں میں رعایت اور مقروضوں کے لیے سہولتیں بھی اسی مقصد کے تحت متعارف ہوئیں۔ سماجی سطح پر تعلیم کو مفت اور سب کے لیے عام کرنے کے فیصلے، چرچ اور ریاست کی علیحدگی اور عورتوں کو سماجی و سیاسی زندگی میں فعال کردار دینے جیسے اقدامات کیے گئے۔ یہ سب اصلاحات اس بات کی دلیل تھیں کہ کمیون محض ایک انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک عملی پروگرام بھی رکھتی تھی۔
تاہم کمیون کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑی رکاوٹ اس کا محدود وقت تھا۔ صرف بہتر دن کے مختصر عرصے میں کوئی بھی انقلابی منصوبہ اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکتا۔ دوسری بڑی کمزوری اندرونی اختلافات تھے۔ انقلابیوں کے مختلف دھڑے ایک واضح اور متحدہ پروگرام پر متفق نہ ہو سکے، جس کے نتیجے میں قوتِ فیصلہ کمزور پڑ گئی۔ دفاعی اعتبار سے بھی کمیون کمزور رہی۔ منظم فوجی طاقت کے بغیر وہ فرانسیسی حکومت کی بھرپور عسکری یلغار کے سامنے ڈٹ نہ سکی۔ مزید یہ کہ یورپ کی دیگر ریاستوں نے اس تحریک کو سہارا دینے کے بجائے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھا اور اس کی تنہائی مزید بڑھ گئی۔
پیرس کمیون کا تاریخی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اگرچہ اس تجربے کی ناکامی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، لیکن اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ریاستی جبر کے بغیر بھی معاشرتی نظم و ضبط قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کمیون کا ماڈل دفاعی طاقت، طویل المدتی منصوبہ بندی اور وسیع پیمانے پر حمایت کے بغیر زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا، لیکن اس نے ایک نئے امکان کو دنیا کے سامنے رکھا۔ یہ امکان یہ تھا کہ شہری اپنے اجتماعی فیصلوں کے ذریعے انصاف اور برابری پر مبنی نظام تشکیل دے سکتے ہیں۔
اس اعتبار سے پیرس کمیون آزادی اور حاکمیتِ عوام کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔ اس نے انارکی اور نظم کے درمیان تعلق پر ایک نئی بحث کو جنم دیا اور آنے والی نسلوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ حقیقی آزادی کیا ہے اور کس طرح اسے منظم کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ تجربہ ناکام رہا، لیکن اس نے محنت کشوں اور جمہوریت پسندوں کے ذہنوں میں ایک ایسا تصور پیدا کیا جو بعد کی انقلابی تحریکوں کی فکری بنیاد بنا۔
References
Engels, F. (1891). Introduction to The civil war in France. In K. Marx, The civil war in France.
Gluckstein, D. (2006). The Paris Commune: A revolutionary democracy. London: Bookmarks.
Harvey, D. (2003). Paris, capital of modernity. London: Routledge.
Lissagaray, P.-O. (1876). History of the Paris Commune of 1871. London: Reeves.
Marx, K. (1871). The civil war in France. London: Truelove.
Ross, K. (2015). Communal luxury: The political imaginary of the Paris Commune. London: Verso.
Tombs, R. (1999). The Paris Commune 1871. London: Longman