مبصر: محمد نعیم یاد
ادب کی دنیا میں نئے لکھنے والوں کے لیے یہ ہمیشہ ایک مشکل مرحلہ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک پہچان دلوائیں، مگر کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنی سنجیدہ کاوشوں اور اخلاص سے کم وقت میں اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔ انہی خوش نصیبوں میں مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان ادیب و محقق سراج احمد تنولی شامل ہیں، جنہوں نے تحقیق، صحافت اور ادب کے مختلف شعبوں میں مسلسل محنت اور جستجو کے ساتھ ایک نمایاں مقام پیدا کیا ہے۔ نوجوانی کی عمر میں پانچ کتب شائع کرنا محض تعداد نہیں بلکہ ایک بھرپور علمی و فکری سفر کی نشاندہی ہے۔


سراج احمد تنولی کا قلم ایک طرف تحقیق کی باریک بینی سے جڑا ہے تو دوسری طرف ادب کی لطافت اور جذبے کی سچائی سے لبریز ہے۔ ان کی پہلی کتاب ’’آئیں بات کر کے دیکھتے ہیں‘‘ مشاہیرِ ادب کے انٹرویوز پر مبنی تھی جس میں انہوں نے نہایت باریک بینی کے ساتھ بڑے ادیبوں اور شعرا کے خیالات کو محفوظ کیا۔ اس کے بعد ’’انسائیکلوپیڈیا مانسہرہ‘‘ ایک ایسی تصنیف ہے جو اپنے خطے کے علمی، تاریخی اور ثقافتی خزانوں کو یکجا کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔ خطاطی پر ان کی تحقیقی کاوش انہیں ایک نئے رخ پر لے گئی جہاں انہوں نے ماہرینِ فن کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اس ہنر کی روایت کو علمی بنیادوں پر اجاگر کیا۔ اسی دوران ان کا کالمی مجموعہ ’’دیا‘‘ سامنے آیا جس میں وہ معاشرتی، فکری اور روزمرہ زندگی کے پہلوؤں پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان تمام کتب میں ایک بات مشترک ہے: گہری وابستگی، خلوص اور سنجیدہ علمی محنت۔
اب ان کی پانچویں اور تازہ ترین کتاب ’’ایک دن سیدی رسول اللہ ﷺ کے نام‘‘ منظر عام پر آئی ہے جو سراج احمد تنولی کی ادبی و فکری جستجو کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی واردات کی آئینہ دار ہے۔ یہ کتاب روایتی سیرت نگاری سے ہٹ کر ایک منفرد جہت پیش کرتی ہے۔ یہاں نہ محض واقعات کی خشک ترتیب ہے، نہ ہی محض تحقیقی موشگافیاں۔ یہ کتاب ایک عاشقِ رسول ﷺ کی قلبی واردات ہے جس میں وہ دن بیان کیا گیا ہے جو رسولِ اکرم ﷺ کی معیت میں بسر ہوا۔ تہجد کی خاموش ساعتوں سے لے کر فجر کی اذان، مسجد نبوی ﷺ کی سادگی، صحابہ کرامؓ کی محبت، گھریلو زندگی کی لطافت، بچوں سے انس، بازار کی ایمانداری، قیلولہ کی مسکراہٹ، عصر و مغرب کے اذکار اور عشاء کے بعد کی خاموشی تک مصنف قاری کا ہاتھ تھام کر اسے مدینہ منورہ کی گلیوں اور حجرۂ مبارک کے دروازے تک لے جاتا ہے۔ ہر منظر میں قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس روحانی دن کا براہِ راست شاہد ہو۔
تحریر میں نرمی، جملوں میں شعری چمک، اور بیانیے میں وہ سوز ہے جو صرف محبتِ مصطفی ﷺ سے لبریز دل کو نصیب ہوتا ہے۔ کہیں خاموشی بولتی ہے، کہیں روشنی راستہ دکھاتی ہے، اور کہیں آنسو رحمت کے قطرے بن کر صفحے پر جھلملاتے ہیں۔ کتاب پڑھنے والا محض مطالعہ نہیں کرتا بلکہ ایک روحانی کیفیت سے گزرتا ہے۔ یہی اس تصنیف کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہ قاری کو محض علم نہیں دیتی بلکہ کیفیت عطا کرتی ہے۔

اہلِ علم اور ممتاز اساتذہ نے بھی اس کتاب پر اپنے تاثرات دیے ہیں جن سے اس کی ادبی و روحانی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ رائے متفقہ ہے کہ سراج احمد تنولی نے عشق و ادب کے امتزاج سے سیرت نگاری کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ ان کی تحریر قاری کو محض قائل نہیں کرتی بلکہ متاثر اور متحرک کر دیتی ہے۔
اس کتاب کو لاہور کے معروف ادارے مکتبہ شافی نے نہایت دیدہ زیب انداز میں شائع کیا ہے۔ سرورق کی ڈیزائننگ کا اعزاز معروف خطاط و شاعر محمد نعیم یادؔ کو حاصل ہے۔ کاغذ، طباعت اور کتابت کے اعلیٰ معیار نے اسے ایک یادگار اشاعت بنا دیا ہے۔ یہ کتاب 2025ء (محرم الحرام 1447ھ) میں شائع ہوئی ہے اور اس کا ہدیہ 1500 روپے مقرر کیا گیا ہے۔
رابطے اور خریداری کے لیے مکتبہ شافی، 13/1 شافی چوک، کریم پارک، راوی روڈ لاہور سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
رابطہ برائے خریداری
مکتبہ شافی لاہور: 0301-4047881
مصنف سراج احمد تنولی: 0344-1011071