Skip to content

سیلاب کے بعدسیلاب

شیئر

شیئر

تحریر: عمرخان جوزوی

اللہ بخشے مرحوم منیرنیازی صاحب نے نہ جانے کس حال اوراندازمیں یہ شعر کہاتھاکہ۔اک اوردریاکاسامناتھامنیرمجھ کو۔۔میں ایک دریاکے پاراتراتومیں نے دیکھا۔نیازی صاحب کودریاکے پاردریاکاسامناتھایانہیں لیکن حالات وواقعات کواگردیکھاجائے تو ہمیں سچ میں آج کل دریاکے پاردریاکاسامناہے۔ابھی ایک دریاہم نے پارنہیں کیاہوتاکہ سامنے پہلے سے تیار دوسرادریاہمارے استقبال کے لئے ایسے موجیں ماررہاہوتاہے کہ اللہ کی پناہ۔ہم توابھی تک طوفانی بارشوں اورسیلاب والے دریاسے پاربھی نہیں ہوئے تھے کہ اوپرسے مہنگائی کادریابھی سیلاب لئے سرپرآن کھڑاہے۔آٹااورچینی سمیت دیگراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں چنددنوں کے اندردوگنااضافہ یہ دریاکے پاردریانہیں تواورکیاہے۔؟غریب لوگ سیلاب کی وجہ سے سراٹھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ ان کے پاس جوکچھ تھاوہ سیلاب میں بہہ کرتباہ ہوچکاہے۔گلگت سے بونیراورباجوڑسے قصورتک سیلاب نے جوتباہی پھیلائی اورمچائی ہے اس کااندازہ نہیں۔درجنوں اورسینکڑوں نہیں ہزاروں افراداپنے گھربارسیلاب میں بہہ اورتباہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے زندگی کے شب وروزگزارنے پرمجبورہیں۔ایسے حال میں جب سیلاب لوگوں کاسب کچھ بہالے گیاہے۔ملک کے اندرآٹااورچینی سمیت دیگراشیاء کی قیمتوں میں اچانک دوگنااضافہ یہ فقط ظلم نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے۔لوگ زلزلہ وسیلاب جیسے عذاب سے عبرت حاصل کرکے انسان بن جاتے ہیں مگرافسوس ہم ایسے واقعات اورحادثات کے بعدانسانیت سے ہی دورنکل جاتے ہیں۔دوہزارپانچ کے تباہ کن زلزلے کے بعدبھی جب لوگ دووقت کی روٹی کے لئے تڑپ اورترس رہے تھے تب بھی ہم نے لوٹ مارکااسی طرح بازارگرم کرکے مخلوق خداکوجی بھرکردونوں ہاتھوں سے لوٹاتھا۔آج بھی جب اکثرلوگوں کودووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب بھی ہمیں لوٹ مارسے فرصت نہیں۔مہذب معاشروں میں قدرتی آفات،حادثات،واقعات اورہنگامی حالات میں نظام کی بھاگ دوڑسنبھالنے اورتھامنے والے لوگ عوام کی آسانی کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول کراپنے دربھی واکردیتے ہیں مگرہمارے اس معاشرے کے حالات،ہماری روایات اورعادات اس طرح کی باتوں اورکاموں سے بہت مختلف ہیں۔ہمیں تو اپنے اس پیٹ والے جہنم اورتجوریاں بھرنے کے لئے قدرتی آفات،حادثات اورواقعات کاشدت سے انتظاررہتاہے۔ہم ہروقت اس تاک میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب ہمیں دوسروں کی مجبوری،بے بسی اورلاچارگی سے فائدہ اٹھانے کاکوئی موقع ملے۔آٹااورچینی توبڑی شے ہے۔ ہم تووہ ظالم لوگ ہیں جوکفن کے چندگزکپڑے پربھی لوٹ مارکابازارگرم کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔زلزلہ اورسیلاب سمیت کونسی قدرتی آفت اوراللہ کاعذاب ہے جو ہم نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے نہیں دیکھا۔؟قدرتی آفات میں گاؤں کے گاؤں،بستیاں اورشہرہمارے سامنے اجڑگئے۔سیلاب وزلزلوں میں اپنے جیسے ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کوہم نے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے اس دنیاسے جاتے دیکھا۔آٹا،چینی اورگھی کے بڑے بڑے گودام اورٹرک ہمارے سامنے سیلاب میں پتوں کی طرح بہہ گئے۔بڑے بڑے تاجر،سرمایہ کار،صعنتکاراورزمیندارہماری ان آنکھوں کے سامنے دنیاسے فناہوگئے لیکن پھربھی ہم گزرے واقعات،حادثات اورآفات سے کچھ نہیں سیکھ سکے۔جوالمناک وغمناک واقعات،حادثات اورسیلاب وزلزلوں جیسے قدرتی آفات ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں یہ اگرپتھردیکھتے تووہ بھی اللہ کے ڈر،خوف اورگھبراہٹ سے ریزہ ریزہ ہوجاتے مگرہم پھربھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ ہمارے جیسے انسانوں کے دل واقعی پتھرسے زیادہ سخت ہیں۔اسی لئے توقرآن مجیدمیں ہمارے جیسے لوگوں کے دلوں کوپتھرسے زیادہ سخت قراردیاگیا۔پتھروہ تواللہ کے ڈراورخوف سے پھٹ بھی جاتے ہیں اورگربھی جاتے ہیں۔پتھروں سے تونہریں بھی نکلتی ہیں اورچشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں لیکن ہمارے دل یہ نہ تواللہ کے خوف سے کانپتے ہیں اورنہ ہی مخلوق خداکے لئے دھڑکتے ہیں۔ہمارے دل پتھرسے زیادہ سخت نہ ہوتے توہم دوہزارپانچ کے قیامت خیززلزلے کودیکھ کراللہ کے خوف وڈرسے مرجاتے۔نہیں تواب اس سیلاب اوراللہ کے قہرکودیکھ کرضرورتوبہ تائب ہوجاتے لیکن افسوس ہمارے دل واقعی پتھرسے زیادہ سخت ہیں کہ ہم نہ پہلے اللہ کے عذاب سے کانپے اورنہ اب ہم پرسیلاب جیسی ان آزمائشوں کاکوئی اثراورفرق پڑرہاہے۔اورلوگ ہوتے تووہ اپنے آٹا،چینی،دال اورگھی کے گوداموں کے ساتھ اپنے گھراوردربھی لوگوں کے لئے کھول دیتے مگرہم نے قوم کی مجبوری کافائدہ اٹھانے کے لئے گودام اورملز کے ساتھ اپنے گھروں کوبھی لوٹ مارکے اڈوں میں تبدیل کردیاہے۔جوچیزکل تک دس روپے کی تھی سیلاب اورطوفانی بارشوں کی وجہ سے وہ اب ہم نے سوروپے کی کردی ہے۔گودام میں پڑاآٹاجوہم نے پندرہ سوروپے میں بیس کلوتھیلے کے حساب سے خریداتھااب وہی آٹاہم نے پچیس سوسے تین ہزارروپے میں وہ بیس کلووالاتھیلا بیچناشروع کردیاہے۔ظلم اورناانصافی کی بھی آخرکوئی حدہوتی ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی اس لوٹ مارکودیکھ کرلگتاہے ہمارے ہاں ظلم اورناانصافی کی کوئی حدنہیں۔طوفانی بارشوں اورسیلاب سے فصل مکئی اورچاول کی خراب ہوئی اورقیمتیں ہم نے آٹااورچینی سمیت دیگر تمام اشیاء کی آسمانوں تک پہنچادیں۔چندٹکوں کے لئے غریب اورمجبورعوام پرمہنگائی مسلط کرکے آخرہم کیاچاہتے ہیں۔؟کیاہم نے نہیں مرنا۔بونیر،باجوڑاوربٹگرام سمیت دیگرعلاقوں میں سیلاب کے اندرشہیدہونے والوں کے پاس بھی مال ودولت سمیت دنیاکی ہرچیزتھی لیکن اب وہ کدھرہے۔؟یہ پیسے یہ مال وزرسمیت یہ ساری چیزیں یہی رہنی ہے۔انسان نے خالی ہاتھ ہی اس دنیاسے جاناہے۔جاتے وقت پھرنیک اعمال کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔یہ زلزلے اورسیلاب ویسے نہیں آتے۔ہم میں خرابیاں اورخامیاں ہیں تب ہی توتباہ کن سیلاب کے بعدیہ زمین مسلسل ہل رہی ہے۔ہمیں اللہ کی مخلوق کولوٹنے کے بجائے اللہ کے حضوراپنے سابقہ گناہوں،ظلم،زیادتی اورناانصافیوں کی معافی مانگنی چاہئیے۔نہیں توپھراللہ کے عذاب سے ہمیں بھی کوئی بچانہیں پائے گا۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں