تحریر:شیرافضل گوجر
آج 15 ستمبر، جمہوریت کا عالمی دن ہے۔ یہ دن محض ایک سیاسی کیلنڈر کی یاد دہانی نہیں، بلکہ انسانی شعور کے اس سفر کی گواہی ہے جو ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔ جمہوریت دراصل انسان کے اس سوال کا جواب ہے جو اس نے ازل سے اپنی فطرت میں محفوظ رکھا ہے:
"کیا میں آزاد ہوں؟ اور اگر آزاد ہوں تو اپنی آزادی کو دوسروں کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کروں؟”
جمہوریت دراصل انسانی وقار کا اجتماعی اظہار ہے۔ یہ اس تصور کا نام ہے کہ کوئی فرد، کوئی طبقہ اور کوئی ادارہ اپنی مرضی کی الہامی سچائی کے طور پر مسلط نہیں کر سکتا، بلکہ انسانوں کو اس دنیا میں مل جل کر ایسے اصولوں پر جینا ہے جو سب کے لیے یکساں ہوں۔ اس لحاظ سے جمہوریت ایک اخلاقی فضا (moral atmosphere) ہے جہاں ہر فرد کو نہ صرف بولنے کا حق حاصل ہے بلکہ سنے جانے کا امکان بھی پیدا ہوتا ہے۔
یونان کے شہر ایتھنز میں جب پہلی بار "demos” اور "kratos” کو یکجا کیا گیا تو یہ ایک تاریخی لمحہ تھا، لیکن یہ تجربہ ادھورا تھا۔ عورتیں، غلام اور غیر شہری اس دائرے سے باہر تھے۔ گویا جمہوریت اپنی پہلی صورت میں آزادی کی جزوی تفسیرتھی۔
قرون وسطیٰ میں جب بادشاہت اور مذہبی پیشوائیت نے مطلق اقتدار پر قبضہ کیا تو انسان کے اندر یہ سوال مزید تیز ہوا کہ "طاقت کا سرچشمہ کہاں سے آتا ہے؟”۔ روشن خیالی کے دور میں جان لاک نے فرد کی آزادی کا مقدمہ لڑا، روسو نے سماجی معاہدے کو انسانیت کا نیا آئین کہا، اور مونٹیسکیو نے طاقت کی تقسیم کو انسانی بقا کی شرط قرار دیا۔
یوں لگتا ہے کہ جمہوریت کوئی ایک لمحہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدلیاتی عمل (dialectical process) ہے، جہاں انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور آہستہ آہستہ آزادی کے دائرے کو وسیع کرتا ہے۔
جمہوریت بطور اخلاقی ارتقا
جمہوریت کو اگر صرف انتخابات، پارلیمنٹ اور آئین کی شقوں تک محدود کر دیا جائے تو یہ اپنی اصل روح سے خالی ہو جاتی ہے۔ جمہوریت دراصل انسانی نفس کا ضبط ہے، جہاں فرد اپنی خواہش کو اجتماعی نفع کے تابع کرتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزادی اپنی اصل میں ذمہ داری ہے، اور برابری اپنی حقیقت میں قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔
جمہوریت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں معاشرے کی اخلاقی سطح صاف دکھائی دیتی ہے۔ اگر معاشرہ کرپشن، تعصب اور طاقت پرستی میں ڈوبا ہو تو جمہوری ادارے بھی انہی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر معاشرہ شعور، انصاف اور تحمل پر مبنی ہو تو جمہوریت ایک زندہ اور بارآور شجر کی مانند پھلتی پھولتی ہے۔
جمہوریت کی کامیابی کسی دستور کی سیاہی سے زیادہ، عوام کے ضمیر کی بیداری پر منحصر ہے۔ مضبوط ادارے تب ہی قائم ہوتے ہیں جب معاشرے میں انصاف کی طلب حقیقی ہو۔ تعلیم یافتہ عوام تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب معاشرہ جہالت کو غلامی کے مترادف سمجھے۔ سیاسی جماعتیں تب ہی عوامی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں جب ان کے رہنما اقتدار کو خدمت کا نام دیں، نہ کہ ذاتی جاگیر۔
اس کے برعکس، جمہوریت وہاں ناکام ہوتی ہے جہاں فرد آزادی کو لاقانونیت سمجھتا ہے، ادارے طاقت کو ملکیت جانتے ہیں، اور قیادت قومی مفاد کو ذاتی لذت کے لیے قربان کر دیتی ہے۔ یوں جمہوریت کا زوال دراصل عوام کے اجتماعی ضمیر کا زوال ہے۔
پاکستان میں جمہوریت: ایک ادھورا خواب
پاکستان کا جمہوری سفر فلسفے کی زبان میں ایک المیہ (tragedy) معلوم ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت عوام نے آزادی کو جمہوریت کا مترادف سمجھا، لیکن جلد ہی طاقت کے مراکز نے عوامی حاکمیت کو کمزور کر دیا۔ بار بار کی فوجی مداخلت اور سیاسی عدم پختگی نے جمہوریت کو جڑیں پکڑنے نہ دیں۔
پاکستانی جمہوریت آج بھی "صورت” میں موجود ہے لیکن "روح” سے محروم ہے۔ پارلیمان ہے مگر قومی مفاد کی آواز کمزور ہے؛ انتخابات ہوتے ہیں مگر عوام کے اعتماد کی سطح کم ہے؛ آئین ہے مگر قانون کی بالادستی کمزور ہے۔ اس کے باوجود امید کا چراغ بجھا نہیں۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور نوجوان نسل اس امر کی علامت ہیں کہ معاشرہ ابھی تک جمہوریت کے خواب سے دستبردار نہیں ہوا۔
جمہوریت کی کامیابی کے لیے بنیادی شرائط۔
پاکستان اور دنیا میں جمہوریت کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اسے محض نظام حکومت کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک وجودی رویہ (existential attitude) بنائیں۔ اس کے لیے چند اصول لازمی ہیں:
قانون بطور ضمیر:
قانون کو خوف کی لاٹھی نہیں بلکہ انصاف کے ضمیر کے طور پر ماننا ہوگا اور قانون پر عملدرآمد اس کی روح کے مطابق ہو۔
ادارے بطور اخلاقی ستون: اداروں کی آزادی محض آئینی تقاضا نہیں، بلکہ یہ انسانی وقار کا حصار ہے۔
سیاست بطور خدمت:
سیاست کو اقتدار کی ہوس سے پاک کرکے سماجی خدمت کے فلسفے پر استوار کرنا ہوگا۔
شعور بطور روشنی:
عوام کو تعلیم اور آگاہی کے ذریعے اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔
جمہوریت کوئی منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل جستجو ہے۔ یہ ہر نسل سے یہ سوال پوچھتی ہے:
"کیا تم اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کی پاسداری کے لیے تیار ہو؟”
اگر جواب "ہاں” ہے تو جمہوریت کی موجودگی کی گواہی موجود ہے، اگر جواب "نہیں” ہے تو یہ محض کھوکھلے وعدوں اور خوشنما نعروں کی کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان کے لیے اصل چیلنج یہی ہے: کیا ہم جمہوریت کو محض ایک ڈھانچہ سمجھ کر اس کے کھوکھلے ثمرات پر قناعت کریں گے یا اسے ایک فلسفۂ حیات بنا کر آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا چراغ؟