Skip to content

تعلیمی نظام کا زوال : ایک عالمی، تہذیبی بحرانصرف پاکستان ہی نہیں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی معیار تعلیم تیزی سےگر رہا ہے

شیئر

شیئر

تحریر: وحید مراد

دنیا کے اکثر ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام تیزی سے اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ بچے اسکولوں اور کالجوں میں برسوں گزارنے کے باوجود عملی زندگی کے چیلنجز کے لیے تیار نہیں ہو پاتے۔ خاص طور پر ریاضی، سائنس اور زبان جیسے بنیادی مضامین میں کارکردگی خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ یہ صرف ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ اب یہ عالمی تعلیمی بحران بن چکا ہے۔

دنیا بھر کی رپورٹس واضح کر رہی ہیں کہ وہ نظام جسے کبھی یقینی علم اور معاشی ترقی کا ضامن قرار دیا گیا تھا اب بچوں کے ذہنوں پر بوجھ بن چکا ہے۔ستمبر 2025 میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے نیشنز رپورٹ کارڈ(NAEP) کے نتائج شائع کیے جن کے مطابق امریکی ہائی اسکول کے طلبہ کی ریاضی اور مطالعے میں کارکردگی بیس سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ بارہویں جماعت کے تقریباً پینتالیس فیصد طلبہ ریاضی میں بنیادی سطح سے بھی نیچے ہیں جبکہ بتیس فیصد طلبہ مطالعے سے مفہوم اخذ کرنے میں ناکام ہیں۔ صرف ایک تہائی طلبہ کالج کی سطح کے ریاضی کے لیے تیار پائے گئے۔ یہ محض ایک تعلیمی ناکامی نہیں بلکہ اس صدی کے سب سے بڑے بحران کی نشاندہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زوال کا آغاز کووڈ سے پہلے ہی ہو چکا تھا وبا نے صرف اس کی شدت میں اضافہ کیا ۔

یہی تصویر دیگر ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ OECD کی رپورٹ PISA 2022 میں بتایا گیا کہ بہتر (72)ممالک میں ریاضی کے اسکور اوسطاً 15 پوائنٹس اور مطالعے کے اسکور 10 پوائنٹس کم ہوئے۔ یہ کمی تقریباً ایک پورے تعلیمی سال کی کمی کے برابر ہے۔ جرمنی، نیدرلینڈز اور ناروے جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نتائج تشویشناک ہیں۔ اسی طرح TIMSS 2023 نے ثابت کیا کہ کووڈ کے بعد طلبہ تحقیق اور عملی مہارتوں میں مزید پیچھے رہ گئے ہیں جبکہ غریب اور امیر طلبہ کے درمیان کارکردگی کا فرق 90 پوائنٹس سے بھی زائد ہو چکا ہے۔

ابتدائی سطح پر بھی یہی صورتحال ہے۔ PIRLS کی رپورٹ کے مطابق بچے طویل متون پڑھنے اور سمجھنے سے دور ہو گئے ہیں۔ وہ مختصر اقتباسات پر انحصار کرتے ہیں جس سے مطالعے کی گہرائی ختم ہو رہی ہے۔ سائنس اور ریاضی میں عملی تجربات اور گروپ ورک کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گریڈ 8 کی سائنس میں مطلوبہ سطح پر صرف 31 فیصد طلبہ پہنچ پائے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ایک اور دلچسپ تضاد یہ ہے کہ وہاں آزادی اور پُرتعیش زندگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جب بچوں کو سہولتیں اور آزادی زیادہ ملتی ہے تو ان میں محنت، اطاعت اور بلند حوصلے کی عادتیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ رٹا لگانا (Rote Learning) دراصل محنت، تکرار، فرمانبرداری اور بلند حوصلے کا تقاضا کرتا ہےاس لیے یہ زیادہ تر نچلے یا کم مراعات یافتہ طبقات کے بچوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ جو بچے زندگی کی مشکلات جھیل رہے ہوتے ہیں وہ رٹے کی سختیاں بھی برداشت کر لیتے ہیں جبکہ آزادی اور آسائش میں پروان چڑھنے والے بچے اس نظام سے بیزار ہو جاتے ہیں۔

مزید یہ کہ ترقی یافتہ دنیا تیزی سے اپنی معاشرت میں نئی سہولیات، آزادی اور آسائشیں بڑھا رہی ہے لیکن وہ رٹے کے کلچر کو ختم کرنے اور حقیقی تعلیم(Real Learning) کو اپنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچے ایک طرف سہولتوں کے عادی اور کم محنتی ہو گئے ہیں اور دوسری طرف اب بھی ایسے تعلیمی نظام میں پھنسے ہیں جو یادداشت اور رٹے کو اصل معیار سمجھتا ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے ان ممالک کے بچوں کی کارکردگی تیزی سے گر رہی ہے۔ ریاضی، مطالعہ اور سائنسی مضامین میں کمزور نتائج اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہیں۔

ترقی پذیر دنیا کی حالت اور بھی نازک ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اسکولوں کی تعداد بڑھی ہے مگر معیارِ تعلیم تیزی سے زوال پذیر ہے ۔ اساتذہ کی تربیت ناکافی ہے، نصاب زندگی سے کٹا ہوا ہے اور امتحانات صرف درست و غلط کے پیمانے تک محدود ہیں۔ افریقہ میں تو ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ’’لرننگ پاورٹی‘‘ یعنی بچپن میں بنیادی ریڈنگ اور حساب کی صلاحیت نہ سیکھ پانے کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

یہ بحران صرف سہولیات کی کمی کا نتیجہ نہیں بلکہ خود تعلیمی ڈھانچے کی کمزوری کا ثبوت ہے۔ نصاب میں وہ مواد بھرا ہوا ہے جس کا بچوں کی روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچے یا تو رٹے کے غلام بن جاتے ہیں یا تعلیم سے ہی بیزار ہو کر اسے مسترد کر دیتے ہیں۔ امتحانات محض نمبروں کی دوڑ ہیں جو نہ تخلیقی صلاحیت ناپتے ہیں نہ تجزیاتی سوچ۔ اگر 70 یا 80 فیصد بچے کمزور کارکردگی دکھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پوری نسل ناکام ہے بلکہ یہ کہ ہمارے اسیسمنٹ کے پیمانے ہی ناقص ہیں۔

دنیا کے ماہرین تعلیم متفق ہیں کہ موجودہ امتحانات صرف یادداشت کو پرکھتے ہیں، عقل و شعور کو نہیں۔ اس لیے بڑے سے بڑا ٹیسٹ بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ بچہ زندگی کے مسائل حل کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام اب ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ صرف تعلیم کا نہیں بلکہ سماج، معیشت اور تہذیب کا زوال ثابت ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ تعلیم کو زندگی سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں وہی مواد شامل ہونا چاہیے جو بچوں کے آج اور مستقبل سے متعلق ہو۔ امتحانات کے بجائے پراجیکٹس، عملی سرگرمیوں اور تخلیقی کاوشوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ اساتذہ کی تربیت جدید سائنسی اور نفسیاتی اصولوں پر ہونی چاہیے۔ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو محض گیجٹ کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی نوعیت کی تعلیم اور تخلیقی امکانات کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

کچھ ممالک اس جمود کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست گجرات نے ’’360 ڈگری اسیسمنٹ‘‘ متعارف کرایا ہے جس میں صرف تحریری امتحان نہیں بلکہ بچے کی تخلیقی سرگرمیاں، رویہ، والدین اور اساتذہ کی رائے سب شامل ہیں۔ فن لینڈ رٹا کلچر کے خاتمے کے بعد پراجیکٹ بیسڈ لرننگ پر زور دے رہا ہے۔ جاپان نے کردار سازی اور زندگی کی مہارتوں کو بنیادی تعلیم کا حصہ بنا لیا ہے۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ اصل ضرورت زیادہ ٹیکنالوجی یا زیادہ سہولتوں کی نہیں بلکہ ایک بنیادی تبدیلی کی ہے۔

یہ بحران دراصل ایک موقع بھی ہے۔ پرانا نظام ٹوٹ رہا ہے اور نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ تعلیم کا مقصد محض ڈگری یا گریڈ نہیں بلکہ باشعور، باکردار اور تخلیقی انسان تیار کرنا ہے۔ اگر ہم پرانے نصاب، تدریس اور امتحانات پر ہی اصرار کرتے رہے تو آنے والی نسلیں نہ سائنس میں آگے بڑھ سکیں گی نہ تہذیبی ارتقا میں۔ وقت آ گیا ہے کہ کھلے دل سے تسلیم کیا جائے کہ موجودہ تعلیمی ڈھانچہ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ بچے نکمے، نالائق اورناکام نہیں بلکہ انہیں پرکھنے کے پیمانے فرسودہ ہوچکے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں