Skip to content

مستقبل کا سفر: مانسہرہ سے ایک جھلک

شیئر

شیئر

تحریر :ڈاکٹر عادل سیماب

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے پاس وقت کی مشین ہوتی تو ہم مانسہرہ کی کسی گلی سے اُس مستقبل میں جا سکتے جو ہم اپنی محنت اور اتحاد سے خود بنا سکتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے: آپ مانسہرہ کے مرکزی بازار میں چل رہے ہیں، جہاں کبھی گاڑیوں کا شور اور دھواں ہوا کو زہر آلود کرتا تھا، لیکن اب 2035 میں وہی سڑک صاف، روشن اور زندگی سے بھرپور ہے۔ گاڑیوں کے بجائے صبح و شام سائیکلوں کا دریا بہتا ہے۔ لوگ دفتر، اسکول اور بازار سب سائیکل پر جاتے ہیں۔ جگہ جگہ بورڈ لگے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ آج کتنی سائیکلوں کی پارکنگ خالی ہے، بالکل ویسے جیسے کبھی کار پارکنگ کے اعداد و شمار ہوا کرتے تھے۔

یہ سب کسی خواب کی طرح لگتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اجتماعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں تو دس سال میں بھی دنیا بدل سکتی ہے۔ اگر ہالینڈ اور اسپین جیسے ملک یہ ماڈل بنا سکتے ہیں تو پاکستان کے مانسہرہ، لاہور اور کراچی کیوں نہیں؟

اب ذرا گھروں کا حال دیکھیے۔2035 میں مانسہرہ کے مکین ایسے گھروں میں رہتے ہیں جو مقامی لکڑی اور پتھر سے بنے ہیں، جہاں گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمی خود بخود موجود ہے۔ یہ گھر صحت بخش ہیں اور عام لوگوں کی پہنچ میں ہیں۔ کنکریٹ کے بے روح جنگلات کے بجائے یہاں باغات اور سبزہ ہے۔ فالتو سیمنٹ اور کنکریٹ ہٹانے کی صنعت پاکستان میں سب سے بڑی صنعتوں میں شامل ہو چکی ہے۔ اسکولوں کے میدان سخت زمین کے بجائے سبز باغات اور کھلی فضا رکھتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی سمجھ آ چکا ہے کہ سیلابوں پر قابو پانے کے لیے دیواروں اور ڈیموں سے زیادہ فطرت پر بھروسہ بہتر ہے۔ شمالی علاقوں میں دریاؤں کے کنارے اور پہاڑی ندی نالے مقامی حیاتیات کے حوالے کیے گئے ہیں تاکہ وہ قدرتی انداز میں پانی کو سنبھال سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مانسہرہ اور اس جیسے علاقے اب بار بار آنے والے تباہ کن سیلابوں سے محفوظ ہیں۔

خوراک کے شعبے میں بھی انقلاب آیا ہے۔ مانسہرہ کے اسکولوں کے 80 فیصد کھانے اب مقامی طور پر اگائے جاتے ہیں، وہیں پکائے اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس تبدیلی سے بچوں کی صحت بہتر ہوئی ہے اور مقامی زراعت کو بھی فروغ ملا ہے۔

توانائی کے میدان میں بھی عوامی ملکیت کا دور آ گیا ہے۔ اب بجلی کا زیادہ تر حصہ شمسی اور پن بجلی سے پیدا ہوتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ نظام بڑی کمپنیوں کے بجائے مقامی کمیونٹیز کی ملکیت ہے۔ اس سے صرف ماحول نہیں بلکہ معیشت بھی مستحکم ہوئی ہے۔

2035 کا مانسہرہ ایک اور لحاظ سے بھی مختلف ہے۔ یہاں کے اسکول بچوں کے اپنے ڈیزائن کردہ ہیں، اور کئی اسکولوں کے بیچوں بیچ ننھے بارانی جنگلات ہیں۔ بچوں کے لیے تعلیم صرف کتابی نہیں بلکہ عملی، قدرت سے جڑی ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ذہنی صحت بہتر ہے، تخلیقی صلاحیت بڑھی ہے اور بچے زیادہ خوش اور پُراعتماد ہیں۔

یہ سب سن کر شاید کوئی کہے کہ یہ محض خیالی کہانیاں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ایسی مثالیں پہلے ہی موجود ہیں – چاہے وہ ایمسٹرڈیم کی سائیکلنگ ہو یا اسپین کے مقامی خوراکی نظام۔ ہمیں کسی جادوئی ایجاد کا انتظار نہیں، صرف اُس خواہش، اُس چاہت اور اجتماعی ارادے کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے بہتر مستقبل کی طرف لے جائے۔

پاکستان کے شہروں اور قصبوں کے لیے سوال یہ نہیں کہ "کیا یہ ممکن ہے؟” بلکہ یہ ہے کہ "ہم کب آغاز کریں گے؟” اگر مانسہرہ کی ایک گلی بدل سکتی ہے، تو پورا پاکستان کیوں نہیں؟ مستقبل کو حاصل کرنے کا راز یہ ہے کہ ہم اس سے محبت کریں اور اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکیں۔ یہی خواب، یہی محبت، ہمیں تباہی اور مایوسی کی باتوں سے بچا کر عمل اور اُمید کی راہ پر ڈالے گی۔

ڈاکر عادل سیماب ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے شعبہ سیاسیات اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے چئیرمین ہیں۔ ڈاکٹر سیماب تاریخ،سماجیات اور ماحولیات کے موضوعات پر ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتے ہیں۔
adilseemab@gmail.com
پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں