راشد خان سواتی
اس وقت دنیا میں اسرائیلی بدمعاشی کا سورج سروں پر چمک رہا ہے۔ شتر بے مہار کی طرح اسرائیل جب اور جہاں چاہے کسی بھی مہذب اور خوددار ملک کی عزت و ناموس سے کھیلنا اپنا وطیرہ بنا چکا ہے۔ خصوصاً مسلمان ممالک—خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید پوش ہوں یا متمول—اس کے نشانے پر ہیں۔
قطر جیسا عزت دار، مہذب اور خودمختار ملک بھی اسرائیلی جارحیت سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس کی خودمختاری کو سرِعام تار تار کرنا اور بغیر اطلاع حملہ آور ہونا کہاں کا انصاف ہے؟ کم از کم دشمن کو اتنا تو بتانا چاہئے تھا کہ ہم آ رہے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو چنگیز اور ہلاکو کے لشکر بھی حملے سے پہلے صاف اعلان کرتے تھے۔ بغداد میں مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار ضرور بنے، مگر اس سے پہلے وہ صاف کہتے تھے کہ ہم حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ آج کے اسرائیل میں وہ بھی شرافت باقی نہیں رہی۔
مسلمان دنیا کی حالت یہ ہے کہ اپنی اپنی محفلوں اور مجلسوں میں فرقہ بندی اور گروہ بندی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ فلسفیانہ اور منطقی دلیلوں کے انبار لگتے ہیں، اور یوں ایک دوسرے کو چاروں شانے چت کرتے ہیں۔ لیکن جب بات کفر کی طاقت کے خلاف کھڑے ہونے کی آتی ہے تو شرافت اور بزدلی کے لبادے میں چھپ کر اپنے انجام کا انتظار کرتے ہیں۔
آج بھی امتِ مسلمہ اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ بزدلی اور شرافت کے ملے جلے رویے نے مسلمانوں کو بے وزن کر دیا ہے۔ فرقہ واریت اور گروہ بندی نے ان کی اصل قوت اور وقار کو چھین لیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کی اس بے لگامی اور بدمعاشی کا جواب شرافت کے پردے میں نہیں بلکہ غیرت، جرات اور خودداری کے ساتھ دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان، ترکی، افغانستان، سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر یہ ممالک اتحاد کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو نہ صرف امتِ مسلمہ بلکہ امنِ عالم بھی اسرائیلی بربریت سے محفوظ رہ سکتا ہے۔