Skip to content

لاہور کی چمک اور ماں کی یاد

شیئر

شیئر

تحریر: بلال سعید

ماں کا وجود زمین پر جنت کی علامت ہے۔ اللہ نے ماں کے دل میں ایسی محبت رکھی ہے جو کسی اور رشتے میں میسر نہیں۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری ماں سلامت ہیں اور دعا کرتا ہوں کہ اُن کا سایہ ہمیشہ قائم رہے۔ میں اپنی ماں سے بے حد محبت کرتا ہوں، دنیا کے سب رشتے ایک طرف اور ماں کا رشتہ ایک طرف۔ ماں وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے، وہ سکون ہے جو دل کی بے قراری کو تھام لیتا ہے، اور وہ دعا ہے جو تقدیر کے دروازے بدل دیتی ہے۔

میری زندگی کی سب سے حسین یادیں میرے گاؤں کی ہیں، جہاں ماں کی مسکراہٹ ہر صبح کو روشن کرتی تھی۔ جب بچپن کی شرارتوں میں میں تھک کر اس کی گود میں سر رکھ دیتا تو یوں لگتا جیسے کائنات کی سب سے زیادہ آرام دہ جائے پناہ مجھے مل گئی ہے۔ ماں کی آواز میں وہ تاثیر تھی جو ہر دکھ کو شفا بنا دیتی، اور اس کی دعاؤں میں وہ طاقت تھی جو ہر مشکل کو آسان کر دیتی۔

اب جب میں دور ہوں تو دل کی ایک خاموش وادی میں ویرانی بسی ہوئی ہے۔ کتنا عجیب ہے کہ لوگوں کے ہجوم میں بھی تنہائی کا احساس گہرا ہو جاتا ہے، کیونکہ ماں کی کمی ہر شے کو ادھورا کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی یاد آتا ہے کہ کس محبت سے وہ مجھے وقت پر نماز پڑھنے کی تلقین کرتی تھی، کس فکر سے میرے لباس کو سنوارتی تھی، اور کس خلوص سے میری کامیابی کے لیے دعا کرتی تھی۔

ماں محض ایک رشتہ نہیں بلکہ ایک کائنات ہے۔ جس کے سائے میں انسان جیتا ہے اور آج شہر لاہور کی چمک دمک آنکھوں کو تو بھا لیتی ہے مگر دل کے اندھیروں کو کم نہیں کر پاتی۔ روشنیوں کے شہر لاہور میں بیٹھا ہوں، مگر دل کی گہرائیوں میں وہی پرانی اُداسی بسی ہے۔ گاڑیوں کا شور، لوگوں کی بے رخی، انا کی جنگیں اور لہجوں کی سختی دل کو بہت اداس کرتی ہے میری اصل روشنی تو گاؤں کی اُس مٹی میں ہے جہاں ماں کا سایہ موجود ہے

ہم چار بھائی ہیں، مگر میری ماں سب سے زیادہ محبت مجھ سے کرتی ہیں کیونکہ میں اُن کا سب سے چھوٹا بیٹا ہوں۔ ایک وقت تھا جب میں گاؤں کے قریب ایک کالج میں کنٹریکٹ پر ملازمت کرتا تھا۔ جب وہ کنٹریکٹ ختم ہوا تو مزید کام نہ ملا اور بھائی جان کے کہنے پر مجھے لاہور آنا پڑا۔ جس دن میں پہلی بار لاہور آیا تھا، میری آنکھوں میں آنسو تھے، اور میری ماں بھی بہت رو رہی تھیں۔ وہ لمحہ آج بھی دل کو بے چین کرتا ہے۔

ماں کے ساتھ گزرا ہوا وقت مجھے ہمیشہ یاد آتا ہے۔ خاص طور پر ماں کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے آج بھی لاہور کی کسی میز پر نہیں ملتے۔ میں جب بھی فون پر ماں سے بات کرتا ہوں تو اکثر میری آواز رُندھ جاتی ہے۔ ماں فوراً پہچان لیتی ہیں اور کہتی ہیں: “بیٹا کھانا کھایا ہے؟” چاہے میں کہہ دوں کہ کھایا ہے، مگر ماں دل کی دھڑکنوں سے جان لیتی ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔

جب بھی گاؤں سے کوئی لاہور آتا ہے تو ماں اُس کے ساتھ گاؤں کی سوغات بھیج دیتی ہیں اور پیغام دیتی ہیں: “میرے بلال کو دینا۔” وہ سوغات جب ملتی ہیں تو دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔

یادوں کا ایک سلسلہ بھی ہے جو لاہور کی چمک کو مدھم کر دیتا ہے۔ گاؤں کی سردیوں کی طویل راتوں میں جب ماں چولہا جلا کر بیٹھتیں تو میں اُن کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا۔ اُن کے ہاتھ کے پکوڑے اور چائے سردی کو خوشی میں بدل دیتے۔ کبھی وہ بھنے ہوئے آلو بھی کھلا دیتیں۔

ایک دن ایسا بھی آیا کہ آسمان پر سیاہ بادل چھائے، بارش زوروں کی تھی، اور ماں کچن میں روٹی بنا رہی تھیں۔ میرا دل چاہا کہ آج ماں کو اُن کی پسندیدہ مچھلی کھلاؤں۔ بارش اور سردی کے باوجود میں بائیک پر بازار گیا۔ جب واپس آیا تو کیا دیکھا کہ ماں دروازے پر کھڑی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں پریشانی تھی۔ جیسے ہی اُن کے ہاتھ میں مچھلی کا شاپر دیا تو ماں کی خوشی دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ پھر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی کے ساتھ وہ مچھلی کھائی اور قہوہ پیا۔ یہ منظر آج بھی دل پر نقش ہے۔

ماں کے ساتھ بیتے ہوئے یہ لمحے زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ میں جب پڑھائی کے دوران اونچی آواز میں کتاب پڑھتا تھا تو ماں ہنستی اور کہتی: “پاگل ہو جاؤ گے کیا، بس کرو گنگنانا۔” اُن لمحوں کی مسکراہٹ آج بھی یاد آتی ہے۔

میری ماں چاہتی ہیں کہ میری نوکری گاؤں کے قریب ہو تاکہ میں اُن کے پاس رہوں۔ وہ دعا کرتی ہیں کہ میں اپنی اصل فیلڈ میں واپس آؤں۔ میں اُنہیں کہتا ہوں: “ماں، دعا کریں، اللہ سب بہتر کرے گا۔” کبھی کبھار میں تعلیم آگے بڑھانے کا ذکر کرتا ہوں تو وہ محبت بھری ڈانٹ دیتی ہیں: “بس کرو بیٹا، اور کتنا پڑھو گے؟”

میری ماں نہایت سادہ مزاج ہیں۔ لاہور گھومنا کبھی میری خواہش تھی، مگر اب یہی خواہش مجبوری بن گئی ہے۔ یہاں کی چمک دمک، گاڑیوں کا شور اور لوگوں کی خود غرضی دل کو ویران کر دیتی ہے۔ ہر شخص اپنی انا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مگر یہ روشنیوں کا شہر بھی میری گاؤں کی یادوں کو مدھم نہیں کر سکا۔

میری ماں اکثر کہتی ہیں: “بیٹا، میں چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔” اور جب بھی کوئی گاؤں جاتا ہے، میں اُنہیں لاہور کی کوئی سوغات ضرور بھیجتا ہوں۔

جیسا کہ میں نے کہا:

لوٹ کر کب بلال آئے گا
ماں میری راہیں دیکھتی ہو گی


اختتامیہ: ماں ایک کائنات

میری ماں کی دعائیں میری اصل طاقت ہیں۔ میں جہاں بھی رہوں، میری زندگی کی سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑی دعا ماں ہے۔ روشنیوں کا یہ شہر کبھی بھی اُس خوشبو کا نعم البدل نہیں ہو سکتا جو ماں کے دامن سے آتی ہے۔

اللہ میری ماں کو سلامت رکھے، اُن کا سایہ ہمیشہ میرے سر پر قائم رکھے، اور مجھے یہ توفیق دے کہ میں اُن کی دعاؤں کا حق ادا کر سکوں۔۔
اللہ پاک میری ماں کو سلامت رکھے۔آمین
ماں .آپ کا خاک نشیں بیٹا۔بلال۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں