ڈاکٹر عادل سیماب
"ایک ایسی سماجی تحریک کی ضرورت جو فضا کو شفاف، معیشت کو مضبوط اور ورثے کو محفوظ بنائے۔”
مانسہرہ، اپنی تاریخ، قدرتی حسن اور ثقافتی ورثے کے باعث ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے آج سے ہی ماحول کے تحفظ اور پائیدار ترقی کو اپنا شعار بنایا تو دس سال بعد ہمارا یہ شہر کیسا ہوگا؟
تصور کیجیے کہ شہر کی فضا درختوں کی خوشبو اور تازہ ہوا سے لبریز ہو۔ چیڑ اور دیودار کی قطاریں مرکزی سڑکوں کو سایہ دے رہی ہوں۔ شور مچاتی دھواں اگلتی گاڑیوں کی جگہ برقی گاڑیاں خاموشی سے دوڑ رہی ہوں۔ مقامی شمسی اور آبی وسائل سے تیار ہونے والی بجلی نہ صرف گھروں بلکہ صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو بھی روشن کر رہی ہو۔
زراعت کے میدان میں مانسہرہ اپنی شناخت مزید مستحکم کر چکا ہو۔ شہر کے نواحی علاقوں میں سیب، خوبانی، آلوچے اور اسٹرابیری کے باغات جدید پروسیسنگ یونٹس سے جڑ چکے ہوں۔ یہ یونٹس ماحول دوست طریقے سے پھلوں کو جیم، جوس اور خشک میوہ جات میں ڈھال کر دنیا بھر کی منڈیوں میں پہنچا رہے ہوں ۔ کسانوں کو بہتر قیمت، صاف منڈیاں اور جدید تربیت میسر ہو۔
سیاحت مانسہرہ کی معیشت میں نئی جان ڈال رہی ہو۔ اشوکا کے سنگی فرمان اور قدیم شیوا مندر جیسے تاریخی ورثے جدید انداز میں محفوظ ہوں ۔ سیاح نہ صرف وادیوں کی دلکشی دیکھنے آئیں بلکہ مانسہرہ کی تاریخ اور ثقافت سے بھی روشناس ہوں۔
یہ خواب ، حقیقت بن سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ مانسہرہ کے نوجوان مل کر ایک سماجی تحریک کی بنیاد رکھیں۔
ایک ایسی تحریک جو اپنی مدد آپ کے تحت اس شہر کو خود کفیل، پاک، ماحول دوست اور ترقی کا ماڈل بنانے کے جذبے سے سرشار ہو۔
اس تحریک کے ممکنہ بنیادی مقاصد درج ذیل ہو سکتے ہیں:
شجر کاری کی ہمہ گیر مہم: ہر سال لاکھوں درخت لگانا اور ان کی نگہداشت کے لیے کمیونٹی نظام قائم کرنا۔
صفائی اور کچرے کا نظم: ری سائیکلنگ کو عام کرنا اور شہریوں کو شعور دینا کہ کچرا کہاں اور کیسے ٹھکانے لگانا ہے۔
تعلیمی اصلاحات: نصاب میں ماحول دوست تعلیم کو شامل کرانا تاکہ نئی نسل ذمہ داری کے ساتھ پروان چڑھے۔
نوجوانوں اور خواتین کا کردار: طلبہ تنظیمیں، محلہ کمیٹیاں اور خواتین انجمنیں آگے بڑھ کر سماجی تبدیلی کی قیادت کریں۔
پالیسی اور قانون سازی: قانون ساز اداروں تک اپنی آواز پہنچانا کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جو آلودگی، درختوں کی کٹائی اور زمین کے ضیاع کو سختی سے روکیں، اور سبز منصوبوں کو سہارا دیں۔
عوامی دباؤ: جب شہری ماحول دوست اقدامات پر زور دیں گے تو حکومتی ادارے اور صنعتیں بھی مجبور ہوں گی کہ مثبت رخ اختیار کریں۔
مانسہرہ کو ایک مثالی شہر بنانے کے لیے اس اجتماعی کاوش کا بروقت شروع ہونا انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم نے یہ قدم اٹھا لیا تو دس سال بعد مانسہرہ صرف ایک شہر نہیں، بلکہ پاکستان کے لیے ایک نمونۂ ترقی بن سکتا ہے—جہاں خوشحالی، پائیدار ترقی اور سازگار صحت افزا ماحول تینوں ہم آہنگ ہوں گے۔