Skip to content

رَٹّا کلچر : با طنی سکون اور فکری ہم آہنگی کی تباہی

شیئر

شیئر

وحید مراد

زندگی محض سانس لینے کا نام نہیں بلکہ جسم، ذہن، شعور، روح اور جذبات کی ایک مربوط ہم آہنگی ہے۔ یہ اُس وقت تک مکمل، خوشگوار اور خوبصورت نہیں ہوسکتی جب تک خیالات، احساسات، جسمانی ضروریات، روحانی طلب، سماجی تعلقات اور ذمہ داریاں ایک دوسرے سے متوازن اور ہم رُکاب نہ ہوں۔ جیسے ساز کی ہر تار صحیح تناؤ میں ہو تو دلکش دُھن نکلتی ہے ویسے ہی زندگی تبھی بامعنی، مطمئن اور پُرسکون بنتی ہے جب اس کے تمام پہلو اپنی اپنی جگہ متوازن ہوں۔ بصورتِ دیگر یہی زندگی بے ترتیبی، اضطراب اور باطنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔

یہ توازن صرف انفرادی رویے کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ خاندان، دوستوں، معاشرتی اقدار، تعلیمی نظام،روحانی تربیت، ریاستی انصاف اور مساوی مواقع جیسی اجتماعی اکائیوں پر بھی انحصار کرتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک عنصر غیر فعال ہو جائے یا اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ جائے تو زندگی کا توازن قائم نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر اگر ایک فرد تعلیم، کمائی یا شہرت میں کامیابی حاصل کر لے لیکن جسمانی صحت، جذباتی تربیت یا روحانی سکون کو نظر انداز کر دے تو وہ اندرونی اطمینان حاصل نہیں کر سکتا۔

آج کا انسان ٹیکنالوجی، نظریات اور معلومات کی دنیا میں اس قدر گم ہو چکا ہے کہ “توازن” اور “دل کا سکون” جیسے الفاظ اُسے محض شاعری یا خیالی باتیں محسوس ہوتے ہیں۔ رَٹّا کلچر میں یہ گمان عام ہے کہ جتنی زیادہ معلومات ہوں گی یا جتنی زیادہ کتابیں پڑھی جائیں گی، انسان اُتنا ہی کامیاب اور مطمئن ہو گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ معلومات انسان کی ذہنی صلاحیت، عملی زندگی اور سماجی ماحول سے ہم آہنگ نہ ہوں تو یہ فائدے کے بجائے ذہنی بوجھ بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات یہی علم انسان کی جذباتی اور روحانی زندگی سے تضاد پیدا کرتا ہے جو آگے چل کر ذہنی تناؤ اور بے سکونی کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح اگر انسان صرف کمائی،شہرت اور ذاتی اہداف کے حصول میں مگن رہے تو خاندان، دوستی،سماجی تعلقات ، فلاحی کام ، خدمت اور تفریح نظر انداز ہوجاتے ہیں ۔ صرف عقل، منطق، فلسفے یا سائنسی سوچ پر انحصار کرے تو جذبات، روحانیت، مذہبی اقدار اور غیر محسوس پہلو پسِ پشت چلے جاتے ہیں ۔ دل کی باتیں، جذبوں کی کیفیات، دعا، ذکر، درگزر، توکل اور عبادت وہ پہلو ہیں جو انسان کو اس کی فطرت سے جوڑتے ہیں۔ کیونکہ انسان محض دماغی مشین نہیں بلکہ جذباتی اور روحانی وجود بھی ہے۔

ایمان یا مذہب محض چند عقائد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک فکری، شعوری، اخلاقی اور روحانی نظام ہے جو انسان کی زندگی کے باطنی (subjective) پہلوؤں کو ربط، معنویت اور سکون عطا کرتا ہے۔ انسان فطری طور پر یقین اور وابستگی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی لیے وہ اگر منظم مذہب کو ترک بھی کر دے تو کسی نہ کسی متبادل ایمان، فلسفے، نظریے، ثقافت یا اقدار کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لیتا ہے۔ انسانی شعور صرف معروضی (objective) پیمانوں سے نہیں بلکہ اندرونی احساسات، تجربات اور ایمان کے نازک دھاگوں سے جُڑ کر مکمل ہوتا ہے۔ یہی وہ داخلی حقیقت ہے جو ایمان یا عقیدے کی کسی نہ کسی صورت کو ہر انسان کے اندر ناگزیر بناتی ہے۔ جو لوگ رَٹّا کلچر کی سطحی تربیت کے اسیر ہوتے ہیں، وہ زندگی کے گہرے فکری اور روحانی پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی زندگی ایک وجودی خلا اور مقصدیت کے بحران میں (existential crisis) الجھ جاتی ہے جہاں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دل خالی اور زندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے۔

مزید برآں، ہمارا ادراک (perception) بھی اگر جامد ہو جائے اور ہم پرانے نظریات یا خود ساختہ عادات میں جکڑے رہیں تو ہم اندرونی اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بظاہر ہم انکار کرتے ہیں لیکن شعور ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ یہی اندرونی تضاد بے سکونی کی ایک بڑی وجہ بنتا ہے۔

اس کے علاوہ خود ساختہ مصروفیات بھی باطنی سکون میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ہم اتنے مشغول ہو چکے ہیں کہ خود سے بات کرنے، خاموشی میں بیٹھنے، اپنی روح کی آواز سننے اور اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا وقت ہی باقی نہیں بچتا۔ ہم روحانی خلا کو وقتی تفریح، اسکرولنگ، یا شور و ہنگامے سے دبا دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر روزانہ چند لمحے خاموشی، غور و فکر یا عبادت کے لیے مخصوص کیے جائیں تو یہ ہماری روح کی غذا بن سکتے ہیں۔ایک اور مہلک رجحان وہ اندھی دوڑ ہے جس میں ہم سب شامل ہو چکے ہیں۔ زیادہ شہرت، زیادہ دولت، سوشل میڈیا پر نمائش، مسابقت اور مادی معیار پر اپنی قدر متعین کرنا۔ یہ سب ہمیں ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں دل بھر جاتا ہے، لیکن سکون نہیں آتا۔

باطنی سکون (Inner Peace) کوئی خیالی تصور نہیں بلکہ ایک فطری انسانی ضرورت ہے۔ یہ ایک نازک لیکن نہایت قیمتی کیفیت ہے جو آج کے تیز رفتار، شور زدہ اور الجھاؤ سے بھرپور دور میں شاید سب سے زیادہ نایاب چیز بن چکی ہے۔ انسان چاہے مانے یا نہ مانے وہ لاشعوری طور پر سکون کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور جب وہ اس سے محروم ہو جاتا ہے تو دوسروں کو، ماحول کو حتیٰ کہ پورے نظام کو اپنی بے چینی کا ذمہ دار ٹھہرانے لگتا ہے حالانکہ اصل ذمہ داری ہمارے اپنے طرزِ زندگی، ترجیحات اور رویے پر عائد ہوتی ہے۔

لہٰذا اگر ہم حقیقی توازن، سکون اور اطمینان سے بھرپور زندگی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تمام صلاحیتوں کو ایک متوازن نظام کے تحت پروان چڑھانا ہو گا۔ علم، جذبات، جسمانی صحت، روحانی سکون، خود شناسی، دوستی، تفریح، سماجی تعلقات، آمدنی اور خدمت یہ سب اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے چاہییں۔

تعلیم کا مقصد صرف معلومات دینا نہیں بلکہ انسان کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنے وجود، کائنات اور حقیقت کے باطنی ربط کو سمجھ سکے۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام کو رٹے کے کلچر سے نکال کر تفکر، مکالمے اور اخلاقی و روحانی شعور کی طرف نہیں لے جائیں گے تب تک نہ ہم مکمل انسان تیار کر سکیں گے نہ پُرامن معاشرہ اور نہ ہی ایسی نسلیں جو زندگی کے اصل مقصد کو پا کر حقیقی سکون حاصل کر سکیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں