تحریر: شہناز یوسفزئی
دنیا بھر میں ہر سال چار ستمبر کو ورلڈ سیکسول ہیلتھ ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ تولیدی و جنسی صحت کے حقوق انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ یہ حقوق محض بیماریوں کے علاج یا زچگی تک محدود نہیں بلکہ انسانی جسم پر اختیار، جنسی انصاف، صنفی مساوات، محفوظ اور باوقار زندگی، اور یونیورسل ہیلتھ کئیر جیسے وسیع دائرہ کار سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں غربت، شرح ناخواندگی اور صنفی ناہمواری پہلے ہی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، وہاں جب کوئی قدرتی آفت مثلاً سیلاب آتی ہے تو عورتوں اور بچوں کی جنسی و تولیدی صحت سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں کے تباہ کن سیلاب نے یہ سوال پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ کیا ہمارا ہیلتھ سسٹم اور سماج ان بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
تولیدی و جنسی صحت کے حقوق کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو اپنی زندگی اور جسم کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اس میں زبردستی یا جبر کے بغیر شادی، مانع حمل سہولتوں تک رسائی، زچہ و بچہ کی معیاری طبی سہولت، جنسی تشدد سے تحفظ، سائنسی بنیادوں پر جنسی تعلیم اور معذور یا پسماندہ طبقے کے لیے مساوی مواقع شامل ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ حقوق زیادہ تر نعرے اور کاغذی دعووں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کی شرح اموات خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر سال ہزاروں عورتیں حمل یا زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ مانع حمل ادویات یا سہولتوں تک رسائی خاص طور پر دیہی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ کم عمری کی شادیاں اور جنسی تشدد جیسے مسائل معاشرتی ڈھانچے کو مسلسل کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اگر یہ صورتحال عام دنوں میں بھی اتنی تشویشناک ہے تو کسی قدرتی آفت، خصوصاً خیبر پختونخوا جیسے خطے میں آنے والے سیلاب میں یہ مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
حالیہ سیلاب نے ہزاروں دیہات کو ڈبو دیا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور درجنوں صحت کے مراکز یا تو تباہ ہو گئے یا غیر فعال۔ ان حالات میں سب سے زیادہ مشکلات حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کو پیش آئیں۔ صحت کی بنیادی سہولتوں کی غیر موجودگی میں عورتوں کو زچگی کے لیے محفوظ ماحول میسر نہ رہا۔ غذائی قلت اور صاف پانی کی کمی نے ان کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا۔
سیلاب متاثرہ خیمہ بستیوں میں عورتوں اور لڑکیوں کو نہ صرف طبی سہولتوں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں جنسی ہراسانی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات نے بھی گھیرے رکھا۔ یہ المیہ ہے کہ ایمرجنسی ریلیف کے نام پر خوراک اور خیموں کی تقسیم تو کی جاتی ہے مگر کسی کو یہ یاد نہیں رہتا کہ عورتوں کی ماہواری کے مسائل بھی بنیادی انسانی ضرورت ہیں۔ سینیٹری پیڈز اور صاف پانی کی عدم فراہمی سے صحت کے سنگین خطرات پیدا ہو جاتے ہیں، جن کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔
یہ تمام صورتحال ایک بڑے خلا کی نشاندہی کرتی ہے: ہماری ریاستی پالیسیوں میں تولیدی و جنسی صحت کہیں نہ کہیں پسِ پشت ڈال دی جاتی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے منصوبوں میں ان مسائل کا ذکر برائے نام ہے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھی آفات کے دوران زچہ و بچہ کی سہولت کے لیے کوئی مؤثر میکنزم موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے سیلاب یا زلزلے کے بعد ہمیں وہی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں: حاملہ خواتین بے سہارا، نومولود بچے خطرے میں، اور عورتیں اپنی بنیادی ضروریات سے محروم۔
خیبر پختونخوا میں پہلے ہی عورتوں کی تعلیم اور صحت تک رسائی محدود ہے۔ سیلاب آتا ہے تو یہ فرق اور گہرا ہو جاتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے، غربت کے دباؤ کے باعث کم عمری کی شادیاں بڑھ جاتی ہیں، اور عورتوں پر گھریلو و سماجی دباؤ مزید بڑھنے لگتا ہے۔ یوں SRHR کی خلاف ورزیاں صرف طبی نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی سطح پر بھی شدت اختیار کر لیتی ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک نے کیا راستہ اختیار کیا۔ بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک نے قدرتی آفات کے دوران تولیدی و جنسی صحت کو اپنی ڈیزاسٹر پالیسی کا حصہ بنایا۔ وہاں عورتوں کو ایمرجنسی کٹس، موبائل کلینکس اور محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی دی گئی، جس سے ان کے مسائل کسی حد تک کم ہوئے۔ پاکستان مگر اب بھی اس سفر میں پیچھے ہے۔
اگر ہم مستقبل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پالیسیوں اور ترجیحات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں تولیدی و جنسی صحت کی کٹس فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ موبائل کلینکس اور عارضی مراکز قائم کیے جائیں تاکہ حاملہ خواتین کو بروقت طبی امداد مل سکے۔ خیمہ بستیوں میں خواتین کے لیے محفوظ جگہیں اور نگرانی کا نظام ہونا چاہیے تاکہ جنسی تشدد کے خطرات کم ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ جامع جنسی تعلیم اور آگاہی پروگرام متاثرہ عورتوں اور لڑکیوں کو اپنے حقوق کے شعور سے مسلح کرتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی میں تولیدی و جنسی صحت کو ایک مستقل ترجیح کے طور پر شامل کرے۔ عالمی اداروں اور ڈونرز کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے، اور یہ احساس پیدا کیا جائے کہ SRHR خوراک اور پناہ کی طرح ایک بنیادی ضرورت ہے۔
آخرکار یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا ہم بطور ریاست اور سماج اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ عورتوں کے یہ حقوق کسی بھی دوسری ضرورت جتنے ہی اہم ہیں؟ اگر نہیں، تو ہر آنے والا سیلاب صرف مکانات اور کھیت ہی نہیں بلکہ عورتوں کے وقار، ان کے جسمانی تحفظ اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو بھی بہا لے جائے گا۔
شہناز یوسفزئی ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد سے تعلق رکھتی ہیں جو ہزارہ ایکسپریس نیوز اور دیگر علاقائی اور قومی میڈیا کے ساتھ بطور ویڈیو جرنلسٹ وابستہ ہیں۔۔