بٹراسی
پاکستان اسکاؤٹس کیڈٹ کالج بٹراسی، جو کہ گزشتہ تیس سالوں سے ایک ممتاز قومی تعلیمی ادارے کے طور پر اپنی شناخت رکھتا تھا جو حالیہ چند برسوں سے متعدد سنگین مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی لپیٹ میں ہے۔ زرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھوں افتتاح پذیر اس ادارے کو پاکستان بھر سے آئے ہوئے کیڈٹس کے لیے ایک مثالی ادارے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ تاہم، پاکستان ریلوے میں ایک انجنئیر موجودہ چیف کمشنر پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، سرفراز قمر ڈھا کی بطور چیف کمشنر سکاوٹس ایسوسی ایشن تقرری کے بعد سے ادارہ بدعنوانی، اقربا پروری اور نظم و ضبط کی شدید خلاف ورزیوں کی زد میں آ چکا ہے۔


کالج کے فنڈز میں ہیر پھیر اور منتقلی سے غیر ملکی دوروں تک اس کالج میں کرپشن اور بد عنوانی کا ہر حربہ آزمایا گیا۔بیس ملین کے خالی چیک کا معاملہ تو سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق، سابق پرنسپل نصیر احمد نے سرفراز قمر ڈھا کی ہدایت پر بیس ملین روپے مالیت کے چار خالی چیکوں پر دستخط کرکے یہ چیکس PBSA کے اکاؤنٹ آفیسر بشارت کے حوالے کیے گئے، جنہیں بعد ازاں نامعلوم افراد کے نام پر مبینہ طور پر کیش کروایا گیا۔ اس عمل میں کسی رسمی مالی طریقہ کار یا اکاؤنٹنگ اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیا، جو کہ صریحاً غبن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔
مشکوک ٹرانسفر کی تفصیلات بھی سامنے آ چکی ہیں۔
مزید یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ سرفراز قمر ڈھا نے نیک اختر نامی شخص کے نام پر دس لاکھ روپے کالج سے نکلوا کر مبینہ طور پر ذاتی فوائد کے لیے استعمال کیے۔ جس سے اس مالی ٹرانزیکشن کی شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
تعلیمی بھرتیوں میں بے ضابطگیاں کی گئیں،
اسلامیات کے لیکچرر کی بھرتی کے دوران سلیکشن کمیٹی نے ایک پی ایچ ڈی اور انتہائی قابل امیدوار کی سفارش کی تھی۔ تاہم، سرفراز قمر ڈھا نے سلیکشن کمیٹی کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک کم تعلیم یافتہ اور ناتجربہ کار فرد کو محض ذاتی وابستگی کی بنیاد پر تعینات کیا، جو واضح طور پر میرٹ کی خلاف ورزی اور اقربا پروری کی مثال ہے۔
ادارہ جاتی بحران اور والدین کی بے چینی
والدین اور سابقہ اسٹاف کی جانب سے بھی یہ شکایات سامنے آئی ہیں کہ بچوں کی تعلیم پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ سے وابستگی کا فیصلہ اچانک اور بغیر مشاورت کے لیا گیا، جس کے نتیجے میں 35 سے زائد طلباء سالانہ بورڈ امتحان میں فیل ہوئے۔ والدین کے احتجاج اور درخواستوں کے باوجود بورڈ کی تبدیلی پر کوئی موثر کارروائی نہ کی گئی۔
غیر شفاف بین الاقوامی دورے
اسپین کے ایک بین الاقوامی اسکاؤٹس دورے میں بھی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس میں والدین سے رقم وصول کی گئی، رقم کی واپسی پر بغیر وضاحت کے ایک بڑی رقم کاٹ لی گئی۔ مزید برآں، اس دورے کے لیے نہ ویزا پروسیسنگ کے مناسب کاغذات فراہم کیے گئے ۔
غیر منصفانہ داخلہ اور رعایت
اطلاعات کے مطابق، سفارشی لوگوں کے بچوں کو کالج میں داخلہ دیتے وقت میرٹ کے بجائے چیئرمین بورڈ آف گورنرز کی ذاتی ہدایت کو مدنظر رکھا جاتا رہا اور ایسے بچوں کو نہ صرف اسے فیس میں مستقل رعایت دی گئی بلکہ انہیں مکمل پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے جسطکی وجہ سے دیگر طلبہ میں کالج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔
ڈاکیومنٹری شواہد کے مطابق شرق پور کالج کے لیے مشکوک فنڈنگ
ایک اور سنگین گھپلا ہے جو سامنے آیا ہے، باوثوق زرائع کے مطابق شرق پور ضلع شیخوپورہ میں ایک نئے اسکاؤٹس کیڈٹ کالج کے قیام کے لیے PSCC بٹراسی کے فنڈز سے ایک کروڑ روپے ایک ٹھیکیدار کو منتقل کیے گئے اور یہ رقم بظاہر ایک "کاغذی منصوبے” کی آڑ میں نکلوائی گئی۔
چیئرمین کی ذاتی ضروریات کے لیے مقامی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
کالج کے بجٹ سے ایک ملین روپے مالیت کے ایپل لیپ ٹاپ کی خریداری بھی چیئرمین بورڈ آف گورنرز کی ذاتی ہدایات پر کی گئی۔اس اقدام کو کالج کی بنیادی ضروریات کے برخلاف اور بدانتظامی کی ایک واضح مثال قرار دیا جا رہا ہے۔
وائس پرنسپل (ایڈمن) وائس پرنسپل (ایڈمن) جس کی کالج رولز میں کوئی سیٹ موجود نہیں ہے اس پر نصر بن معاذ کو تعینات کیا گیا ہے جو کہ چیف کمشنر سکاوٹس کا چہیتا ہے اس کو 250000 روپے ماہانہ اور 10 فیصد سالانہ اضافہ پر کالج میں رکھا گیا ہے تھا اور جس کی تنخوا اب اضافہ کے ساتھ 320000 اور 40000 پٹرول الاونس جو کہ اس کو غیر قانونی طور پر دیا جارہا ہے ۔ جس کی کسی بھی کیڈٹ کالج میں کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
بھرتی برائے اسسٹنٹ پروفیسر
ایک لیڈی ٹیچر کو بیماری کی حالت میں اسسٹنٹ پروفیسر اٹھارویں گریڈ میں تعینات کرکے صرف چھ دن کے بعد اس کو تقریباچار ماہ کی رخصت دی گئی ، اس نے کوئی کلاس نہیں لی اور اٹھارویں گریڈ کی تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے وصول کرتی رہی اور حال ہی میں اس کو ایک ہراسمنٹ کیس کے بعد چھ ماہ کی تنخواہ دینے کے بعد فارغ کردیا گیا ہے۔
کالج وزٹ پر رقم کی وصولی
نیک اختر جاوید جو کہ پاکستان بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کا ملازم ہے جب بھی کالج میں کسی انٹرویو یا ذاتی کام کے سلسلے میں آتا ہے تو وہ اپنے لیے کالج سے مبلغ 20000 روپے وصول کرتا ہے جو کہ سراسر کالج کے اکاؤنٹ پر بوجھ اور کیڈٹس کے پیسوں کا ضیاع ہے۔نیک اختر جاوید نے کالج کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے ۔کالج ملازمین سے اس کا رویہ انتہائی سخت اور ظالمانہ ہے۔ وہ کالج ملازمین کو اپنا ذاتی ملازم اور غلام سمجھتا ہے۔اس نے کالج کی ایک گاڑی ذاتی استعمال کے لیے رکھی ہوئی ہے۔
میس کنسٹرکشن ٹینڈر میں سنگین بے ضابطگیاں، سرفراز قمر ڈاہا پر الزامات
میس کنسٹرکشن کے ایک ٹینڈر میں مبینہ سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس میں محکمہ کے چیرمین بورد اف گورنرز سرفراز قمر ڈاہا پر ٹینڈر عمل میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، ٹینڈر کی اشتہار کے ذریعے عام تشہیر کے باوجود، کسی بھی عام کنٹریکٹر کو ٹینڈر جاری نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس، صرف تین مخصوص کنٹریکٹرز کو، جو مبینہ طور پر سرفراز ڈاہا کے قریبی ہیں، ٹینڈر دستاویزات خفیہ طور پر ایک شام قبل فراہم کی گئیں۔
یہ عمل پبلک پروکیورمنٹ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو شفافیت اور سب کے لیے برابر مواقع کی ضمانت دیتا ہے۔
اس معاملے پر اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ نے بھی تحقیقات کر کے رپورٹ جمع کروائی ہے، جس میں ان غیرقانونی اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق کنٹریکٹر بھی اب کام مکمل کیےبغیر بھاگ گیا ہے اس کا کام انتہائی ناقص ہے دیوار ایک طرف سے بیٹھ رہی ہے اور اب کام اپنے طور پر مکمل کر کے مزید پیسے کھا رہا ہےمطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے
سرفراز قمر ڈاہا کی مبینہ کرپشن: بغیر اجازت 32 ممالک کے دورے، قیمتی گاڑیاں غائب
پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن سے وابستہ افسر سرفراز قمر ڈاہا پر بڑے پیمانے پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور مالی بدعنوانی کے الزامات سامنے آ گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، سرفراز ڈاہا نے چیف اسکاؤٹ کی منظوری (NOC) کے بغیر 32 ممالک کے سرکاری اسکاؤٹ دورے کیے۔ ان دوروں میں وہ متعدد بار اپنے رشتہ داروں اور اہل خانہ کو بھی ساتھ لے کر گئے، جو سرکاری ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
مزید برآں، انہوں نے پی ایس سی سی بٹراسی (PSCC Batrasi) کی دو اور پی بی ایس اے (PBSA) کی دو گاڑیاں ذاتی استعمال میں رکھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ:
بٹراسی کی ایک کار اور ایک ہائی ایس وین گزشتہ تین سالوں سے لاپتہ ہیں۔
اسی طرح، PBSA کی ایک کار اور ایک کیری ڈبہ بھی سرفراز ڈاہا کی تحویل کے بعد سے غائب ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ گاڑیوں کی بازیابی کے لیے تاحال کوئی سرکاری کارروائی یا تحقیقات عمل میں نہیں لائی گئیں۔
متعلقہ حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے سرفراز ڈاہا کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور غائب شدہ سرکاری اثاثہ جات کی فوری بازیابی یقینی بنائی جائے۔
سرفراز قمر داہا پاکستان ریلوے سے نکالا گیا، پھر دوبارہ بحال کر کے اسے BPS-18 میں رکھا گیا۔ اس کے بعد جب اسے ڈیوٹی کے لیے سکھر بھیجا گیا تو وہ وہاں حاضر نہ ہوا، جس پر اس کی 3 سال کی انکریمنٹس روک دی گئیں۔ وہ تاحال ریلوے کا ملازم ہے لیکن بغیر NOC کے 32 ممالک کا دورہ کر چکا ہے۔
پاکستاناسکاٹس کیڈٹ کالج بٹراسی میں زیر تعلیم بچوں کی فیس میں گزشتہ ایک سال کے دوران 70 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا، جو کہ کالج قوانین کےخلاف ہے۔ یہ اقدام مسٹر سرفراز قمر داہا کی جانب سے والدین کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔
پاکستان اسکاؤٹس کیڈٹ کالج بٹراسی میں زرین خان داہا کی غیر قانونی تقرری
جناب سرفراز قمر ڈاہا نے اپنے قریبی رشتہ دار زرین خان ڈاہا کو پاکستان اسکاؤٹس کیڈٹ کالج بٹراسی میں ہیومن ریسورس آفیسر (BPS-17) کے عہدے پر قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعینات کیا۔
محترم زرین خان داہا کو اس عہدے کے لیے درکار تجربہ حاصل نہیں ہے۔ مزید برآں، اُن کے پاس مارکیٹنگ میں بی ایس کی ڈگری ہے، جو کہ ہیومن ریسورس کے شعبے سے متعلق نہیں ہے اور اس عہدے کے لیے مقرر کردہ معیار پر پوری نہیں اُترتی۔
یہ تقرری اقرباء پروری اور میرٹ پر مبنی تقرری کے عمل کی خلاف ورزی کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔
کالج میں فیکلٹی کے تقرر میں غیر قانونی بھرتیاں اور اقرباء پروری
مسٹر نائیک اختر نے مبینہ طور پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ داروں میاں اور بیوی کو کالج میں اہم تدریسی عہدوں پر تعینات کیا، جو کہ میرٹ اور مقررہ بھرتی کے قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مسٹر عامر – ایسوسی ایٹ پروفیسر ریاضی (گریڈ 19) جس کو 8 ایڈوانس انکریمنٹس دیے گئے
مسز عامر – اسسٹنٹ پروفیسر مطالعہ پاکستان (گریڈ 18) جس کو 3 ایڈوانس انکریمنٹس دیے گئے
یہ تقرریاں اس وقت کی گئیں جب کہ کالج میں کئی سینئر، تجربہ کار اور باصلاحیت اساتذہ، جن کی 20 سال سے زائد سروس ہے، تاحال ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی حاصل نہیں کر سکے۔
کئی بیرونی امیدوار، جن کے پاس اعلیٰ قابلیت اور تجربہ تھا، نے بھی درخواستیں دی تھیں لیکن اُنہیں نظر انداز کر دیا گیا۔
یہ صورتحال نہ صرف واضح اقرباء پروری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ بھرتی کے عمل میں انصاف، میرٹ اور شفافیت جیسے اصولوں کو بھی مجروح کرتی ہے۔

میاں نائیک اختر جاوید کی ابتدائی تقرری پاکستان بوائے اسکاوٹس ایسوسی ایشن میں بطور ڈائریکٹر یوتھ پروگرام ہوئی۔ بعد میں سرفراز قمر دھا نے انہیں پاکستان اسکاوٹس کیڈٹ کالج بٹراسی کا قائم مقام پرنسپل لگایا، جہاں سے وہ کالج کی معلومات اور مالیات کا غلط استعمال کرتے رہے۔ انہی غیرقانونی خدمات کے بدلے انہیں سیکرٹری بنایا گیا، حالانکہ صدرِ پاکستان کی باضابطہ منظوری آج تک نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود وہ سیکرٹری کے اختیارات اور مراعات استعمال کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ کالج کی ایک سرکاری گاڑی وہ ایک سال سے ذاتی استعمال میں رکھے ہوئے ہیں
کالج میں غیر قانونی اقدامات اور فیسوں میں بلاجواز اضافہ کے خلاف والدین کی درخواست پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے پانچ طلبہ کو نکال دیا گیا۔ عدالت سے اسٹے آرڈر کے باوجود انہیں داخلہ نہ دیا گیا اور آخرکار والدین کو اپنے بچوں کا داخلہ ختم کرانا پڑا۔ اس ساری زیادتی میں سرفراز قمر دہا، نائیک اختر جاوید اور نصیر احمد ملوث ہیں
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا لیکچرار اردو، جاوید اقبال، پاکستان اسکاوٹس کیڈٹ کالج میں اپنی ملازمت کے دوران ایک خاتون استاد کو ہراسانی کا نشانہ بناتا رہا۔ متاثرہ خاتون ایک نہایت پردہ دار اور باعزت معلمہ تھیں۔ ادارہ جاتی انکوائری میں ہراسانی کے الزامات ثابت بھی ہو گئے، لیکن جاوید اقبال کو محض ایک وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے برعکس شکایت درج کرانے والی خاتون استاد کو ہی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، جو کہ نہ صرف انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے بلکہ خواتین کے حقوق اور وقار کی سنگین پامالی بھی ہے۔
موصوف سرفراز قمر دھا، جو پاکستان بوائز اسکاوٹس ایسوسی ایشن کے بنگلے میں رہائش پذیر ہیں، ادارے کے وسائل کے ذاتی استعمال میں ملوث ہیں۔ ان میں کالج کی گاڑیوں کا ذاتی استعمال اور غائب ہونا، ٹائروں کی خریداری کالج کے اخراجات پر، پاکستان بوائز اسکاوٹس ایسوسی ایشن کی ایک گاڑی کا گم ہونا، رشتہ داروں کی بار بار کالج میں رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات کالج فنڈ سے پورے کرنا، اور عزیز و اقارب کو کالج کی گاڑیوں پر تفریحی دورے کرانا شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات ادارے کے قواعد و ضوابط اور مالی شفافیت کے منافی ہیں، لہٰذا فوری تحقیقات اور کارروائی ناگزیر ہے۔
نائیک اختر جاوید کی کالج میں بطور ایکٹنگ پرنسپل تعیناتی کے ابتدائی دنوں سے ہی کالج میں سرفراز قمر دھا کی کرپشن کا آغاز ہوا۔ اس نے امریکہ کے دورے کا ٹکٹ کالج کے اکاؤنٹس سے خریدا، جس کی رسید اس درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔
حکومت نے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں پاکستان بوائے اسکاوٹس ایسوسی ایشن کے لیے مخصوص فنڈز جاری کیے تھے جو جون 2025 میں لیپس ہونے والے تھے۔ وافر مقدار میں فنڈز پہلے ہی کالج کے پاس موجود ہونے کے باوجود ایسوسی ایشن نے 30 ملین روپے سے زائد رقم کالج کو منتقل کر دی اور حکومت کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ یہ رقم کالج کی مالی کمزوری اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے دی گئی ہے۔
بعد ازاں جولائی 2025 سے یہ رقم 5 ملین کی قسطوں میں واپس لی جا رہی ہے جس کے ثبوت دستاویزات میں موجود ہیں۔ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری فنڈز کے ساتھ فراڈ کرنے اور ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، حالانکہ اس سے قبل بھی متعلقہ افراد کے خلاف بدعنوانی کے مختلف انکوائریز جاری ہیں۔
سرفراز قمر دھا کی ہدایت پر بغیر کسی قانونی تقاضے کو پورا کیے ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا اور اس کے لیے سات سے زائد بھینسیں اور گائیں خریدی گئیں، جو سراسر غیر قانونی عمل ہے۔
پاکستان اسکاوٹس کیڈٹ کالج بٹراسی کے حالیہ 9th کلاس کے فیڈرل بورڈ کے رزلٹ اور O-Level کیمبرج کے نتائج انتہائی مایوس کن اور خراب آئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تجربہ کار اور سینئر مقامی اُستاد اکرام کو بلاجواز تنگ کرنا اور ادارے سے نکال دینا ہے۔
پاکستان اسکاوٹس کیڈٹ کالج بٹراسی نے ادارے کے قواعد و ضوابط کے مطابق تعلیمی سال 2025-26 کی کروڑوں روپے کی خریداری کے لیے ٹینڈر مشتہر کیا اور باضابطہ طور پر اوپننگ بھی کی۔ تاہم میس کے ٹینڈر کو جان بوجھ کر مسترد کر دیا گیا اور صرف سرفراز قمر دھا کی ہدایت پر میٹرو اسلام آباد سے بغیر کسی ٹینڈر کے معاہدہ کرکے اوپن پرچیزنگ کی بنیاد پر خریداری شروع کر دی گئی، جو سراسر ذاتی مفاد کے لیے کیا گیا اقدام ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے جب اس کی کرپشن کے ثبوت حاصل کیے تو صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک خط لکھا اور اس کی فوری برطرفی کی سفارش کی، جس کی بنیاد پر اس کے خلاف انکوائریاں شروع ہوئیں۔ بعد ازاں اس نے صدر کی ہدایت پر طلب کی گئی میٹنگ کو مؤخر کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکمِ امتناع حاصل کیا، جس کے لیے اس نے سجاد مسعود چشتی (جو پاکستان بوائز اسکاوٹس ایسوسی ایشن کے اعزازی خزانچی ہیں) کا سہارا لیا اور تاریخوں کو بار بار آگے بڑھاتا رہا تاکہ ذاتی مفاد حاصل کر سکے۔
قیصر محمود (سابق آفس سپرنٹنڈنٹ بٹراسی) نے سرفراز قمر دھا کی کرپشن کے ثبوت گورنر کو دیے تو انتقامی کارروائی میں ان کی دس سال پرانی پروموشن واپس لی گئی، بیٹے کی فیس کنسیشن ختم ہوئی شروع سے ختم کی گی، 35 لاکھ کی ریکوری فیس اور اضافی تنخواہ کی مد میں ڈال کر سی پی فنڈ ضبط کیا گیا، بیٹے کو عدالتی حکم ہونے کے باوجود امتحان سے روکا گیا اور آخرکار بیماری کی چھٹی کے دوران انہیں فارغ کر دیا گیا۔
جنوری 2025 میں پرنسپل کی تعیناتی کے بعد بھی پرنسپل کے چیک پر بنک کے لیا دستخط جو ڈی ڈی او کے اختیارات ہوتے ہیں وہ نصیر جو پہلے عارضی پرنسپل تھا اس کے پاس ہی ہیں، جو کہ سرفراز قمر دھا کا الائچی اور رازدار اور محتاط افسر ہے۔ 30 جولائی 2025 کو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈی ڈی او کے اختیارات اسی کے پاس ہیں اور وہ صرف دھا کے کہنے پر ہر چیز پر وہ قانونی ہے یا نہیں دیکھا بغیر دستخط کر دیتا ہے۔ نصیر کے خلاف انکوائری جاری ہونے کے باوجود اسے سی پی فنڈ اور دیگر مراعات کی ادائیگیاں کر دی گئیں۔اب صدر مملکت نے ایکشن لیکر چیف کمشنر پاکستان بوائز سکاوٹس ایسی ایشن انجنئیر سرفراز قمر ڈھا کو عہدے سے برطرف کرکے،کیڈٹ کالج سے نکالے گئیے سابق پرنسپل توقیر الاسلام کو دوبارہ پرنسپل تعینات کرنے کے احکامات دے دیے ہیں اور کیڈٹ بٹراسی سے غیر قانونی طور پر نکالے گئیے جملہ سٹاف کو بحال کرنے کے احکامات بھی جاری کرتے ہوئے لوٹ مار اور بد عنوانی میں ملوث سرفراز قمر ڈاھا کے کارندوں اور گروہ کو معطل کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
