ہمارے ملک میں ایک خاموش المیہ روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل، جو کہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتی ہے، موت کے منہ میں جا رہی ہے اور اس المیے کی ایک اور وجہ موٹر سائیکل حادثات ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ حادثات قدرتی نہیں بلکہ ہماری اپنی غفلتوں اور لاپرواہیوں کا نتیجہ ہیں۔
شہروں اور قصبوں میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں نوجوان سڑکوں پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا ہے۔ نوجوان ہیلمٹ کو بوجھ یا اپنی "اسٹائل” کے خلاف سمجھتے ہیں اور چند لمحوں کی لاپرواہی ان کے والدین کے لیے عمر بھر کا غم چھوڑ جاتی ہے۔
پھر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانا بھی معمول بن چکا ہے۔ اوور اسپیڈنگ، ون ویلنگ اور سگنلز کی خلاف ورزی نوجوانوں کے لیے کسی کھیل یا ایڈونچر سے کم نہیں۔ لیکن یہ کھیل اکثر ان کی زندگی کا آخری کھیل ثابت ہوتا ہے۔
اس المیے میں پولیس کی چشم پوشی بھی برابر کی شریک ہے۔ ٹریفک پولیس کئی بار ہیلمٹ کے بغیر چلنے والوں کو نظر انداز کر دیتی ہے، اور کبھی کبھار جرمانہ کر بھی دے تو اس کا اثر جزو وقتی ہوتا ہے۔ جب قانون پر عمل درآمد کمزور ہو تو نوجوان مزید بے خوف ہو جاتے ہیں۔
والدین بھی اس سلسلے میں بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر والدین کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل تھما دیتے ہیں، حالانکہ انہیں ابھی ڈرائیونگ لائسنس لینے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ والدین کی نادانی یا غفلت بعد میں ناقابلِ تلافی نقصان میں بدل جاتی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انتظامیہ اور حکومت آئے روز ہونے والے ان حادثات کی کوئی سنجیدہ انکوائری نہیں کرتیں۔ نہ ہی ان پر مؤثر روک تھام کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے ادارے اور حکومت بھی اس نقصان کی کوئی پرواہ نہیں کرتےاور اس ناقابل تلافی نقصان میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ جب ریاست اور اس کے ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں تو سماج کے مسائل مزید گھمبیر ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ مسائل ہیں جنہیں صرف قانون کے زور پر نہیں بلکہ معاشرتی شعور کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور ٹریفک پولیس کو اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سختی سے ہیلمٹ کے استعمال اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرانا ہوگا۔ ساتھ ہی اسکولوں اور کالجوں میں ٹریفک آگاہی مہمات چلانا ہوں گی تاکہ نوجوان شروع ہی سے اپنی حفاظت کو ترجیح دینا سیکھیں۔
لیکن سب سے بڑھ کر والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ کیونکہ جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، اور چند لمحوں کی لاپرواہی ان کے گھروں میں ہمیشہ کے لیے اندھیرا لے آتی ہے۔
اگر ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا اور ہمارا قیمتی سرمایہ، ہماری نوجوان نسل، حادثات کی سڑکوں پر ضائع ہوتی رہے گی۔
مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن، فافن ، این ایچ این، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک، ، ریڈی پاکستان، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان کی ایگزیکٹو کمیٹیوں کا رکن اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل کا ممبر ہے۔