تحریر: عبد الحق قیوم گجر
پاکستانی معاشرے میں آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ کم سہولیات کے باوجود زیادہ مطمئن اور خوش دکھائی دیتے تھے، لیکن آج سہولتوں کی بھرمار کے باوجود لوگوں کے چہروں سے سکون غائب ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل میں ڈپریشن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لوگ معمولی باتوں پر پریشان ہو جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کو برداشت نہیں کر پاتے۔
ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوانوں کو اچھی نوکری نہیں ملتی، جس کی وجہ سے وہ مایوسی میں چلے جاتے ہیں۔ ان کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ خود کو ناکام سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح مہنگائی اور معاشی مسائل نے بھی لوگوں کی زندگی مشکل کر دی ہے۔ گھر کے اخراجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے افراد کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں اور خاندان کا سکون برباد ہو جاتا ہے۔
ڈپریشن بڑھنے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا اور دوسروں سے مقابلے کی دوڑ بھی ہے۔ جب ایک نوجوان دوسرے کی کامیابیاں اور آسائشیں دیکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس کمتری آہستہ آہستہ دل میں گھر کر لیتی ہے اور انسان کو ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔ نوجوان اپنی اصل زندگی سے زیادہ دوسروں کی دکھاوے والی زندگی دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام نے بھی اس رجحان کو بڑھایا ہے۔ بچوں پر زیادہ نمبر لانے اور ہر حال میں کامیاب ہونے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ امتحان کے دنوں میں بے سکونی اور خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں طالب علم ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں یہ سوچ بھی عام ہے کہ صرف ڈاکٹر، انجینئر یا بڑی ڈگری ہی کامیابی ہے، جبکہ دوسرے شعبوں کو کم سمجھا جاتا ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے نوجوان اپنی دلچسپی کے شعبے میں کام نہیں کر پاتے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈپریشن کی وجہ صرف تعلیمی یا معاشی مسائل نہیں بلکہ خاندانی اور سماجی مسائل بھی ہیں۔ اکثر گھروں میں والدین اور بچوں کے درمیان دوریاں ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی بھی ڈپریشن کا سبب بنتی ہے۔ رشتوں میں محبت اور اعتماد کم ہو رہا ہے، اور لوگ زیادہ تر تنہائی میں رہنا پسند کرنے لگے ہیں۔ تنہائی انسان کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈالتی ہے اور وہ زندگی سے بیزار ہو جاتا ہے۔
اسلام نے ہمیں سکونِ قلب کے لیے سب سے بہترین راستہ بتایا ہے۔ قرآن میں ہے کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کے ذکر سے ملتا ہے۔ نماز، دعا اور صبر وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے دل کے بوجھ کو کم کر سکتا ہے۔ جب انسان اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ مایوس نہیں ہوتا کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا رب اس کی مشکلات کو آسان کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ مومن کے لیے ہر حال خیر ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے اور اگر پریشانی آئے تو صبر کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے کو چاہیے کہ ڈپریشن کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔ والدین کو بچوں پر حد سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے بجائے ان کی بات سننی چاہیے اور ان کو حوصلہ دینا چاہیے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکامی کو زندگی کا اختتام نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک تجربہ سمجھ کر آگے بڑھیں۔ اپنے مسائل دوسروں سے بانٹنے سے بھی دل کا بوجھ کم ہوتا ہے۔ اسی طرح کھیلوں اور مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بھی ذہنی دباؤ کم ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن کا علاج صرف دوائی نہیں ہے بلکہ محبت، سمجھ بوجھ اور مثبت سوچ بھی ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو سہارا دیں، چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر خوشی منائیں اور دوسروں کے ساتھ حسد نہ کریں تو ہم ڈپریشن پر قابو پا سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کیونکہ اصل سکون اور امید صرف وہی دیتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں ڈپریشن کا بڑھتا ہوا رجحان ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اس کا حل نہ نکالا تو آنے والی نسلیں مزید مشکلات کا شکار ہوں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں، اپنی زندگی کو آسان بنائیں، رشتوں کو مضبوط کریں اور دین کی روشنی میں اپنی راہ نکالیں۔ اسی میں ہماری کامیابی اور سکون ہے۔