Skip to content

موسمیاتی تبدیلی۔۔ہم کہاں کھڑے ہیں۔؟

شیئر

شیئر

عمرخان جوزوی
خیبرپختونخوا،گلگت،اسلام آباد اورکراچی کے بعدپنجاب میں بھی سیلاب نے تباہی مچادی ہے،پنجاب کے کئی شہر،گاؤں،دیہات اورقصبے سیلاب میں ڈوب چکے ہیں۔پچھلے چندسالوں سے موسم کے بدلتے تیوراوراب اتنے بڑے پیمانے پراس کے منفی اثرات اورنقصانات نے اس یقین کوپختہ کردیاہے کہ جولوگ اس تباہی سے پہلے موسمیاتی تبدیلی کارونارورہے تھے ان کی آہ وبکااورچیخ وپکارفضول یاویسے نہیں تھی۔موسمیاتی تبدیلی سے دنیاکاکوئی اورملک یاحصہ متاثرہواہے یانہیں لیکن موسموں کی اس تبدیلی نے ہمارے اس ملک کوحدسے زیادہ متاثرکردیاہے۔گلگت سے کراچی تک ملک میں اس بارجوسیلاب آیااس طرح کاسیلاب اس سے پہلے کبھی نہ آیاہوگا۔یہ بات نہیں کہ ملک میں پہلے کبھی سیلاب نہیں آئے،آئے ہردوراورہرجگہ سیلاب آئے لیکن اس قدرخوفناک اورتباہ کن سیلاب اس سے پہلے شائدکسی نے دیکھے ہوں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ملک میں اس بارگلگت اوربونیرسمیت جہاں جہاں سیلاب آئے اس نے آگے پیچھے نہ کچھ دیکھااورنہ کچھ چھوڑا۔یہ سیلاب اس قدراچانک اورخوفناک تھے کہ ان سے بچنے کے لئے پھرلوگوں کووقت ہی نہیں ملا۔موسمیاتی تبدیلی والی باتیں پہلے ہم بھی گپ اورمذاق سمجھ رہے تھے لیکن ملک میں پہاڑوں اوربیابانوں سے آنے والے اس سیلاب نے یہ حقیقت سب پرعیاں کردی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی والی باتیں کوئی بڑھکیں نہیں بلکہ یہ اب ایک حقیقت ہے۔موسم تبدیلی والے ایسے ٹریک پرچڑھ گئے ہیں کہ موسموں کی پیشنگوئیاں کرنے والے ماہرین بھی اب اس تبدیلی سے حیران وپریشان ہیں۔پہلے بارش سے قبل ہواچلتی تھی،پھربادل گرجتے تھے تب جاکروہ بادل پھربرستے تھے لیکن اب ایسانہیں۔اب تو اچھابھلاموسم صاف،آسمان نیلااوردھوپ اچھی طرح نکلی ہوتی ہے کہ اچانک نہ صرف کالے بادل چھاجاتے ہیں بلکہ لمحوں میں برسنے بھی شروع ہوجاتے ہیں۔دوسری بات اب موسم ایسے چینج ہوگئے ہیں کہ ایک جگہ موسم صاف ہوتاہے لیکن ساتھ قریبی دوسری جگہ اورعلاقے میں اس قدرشدیدبارش ہوتی ہے کہ جس کی کوئی امیداورتوقع نہیں ہوتی۔ کچھ دن پہلے ہمارے ہاں ایبٹ آبادمیں موسم صاف اوراچھی بھلی دھوپ لگی ہوئی تھی پچھلے علاقوں میں کہیں اتنی بارش ہوئی کہ اچانک ہماری گلیوں میں اتناپانی آیاکہ جیساکوئی سیلاب آیاہو۔قدرتی آفات کامقابلہ انسان کے بس کی بات نہیں۔ماناکہ دنیاوالوں کے پاس بہت وسائل اورہرقسم کی مشینریاں اورآلات ہیں لیکن قدرت کے قہرکے سامنے یہ وسائل اورمشینریاں کچھ بھی نہیں۔قدرتی آفات کاآج تک نہ کسی نے مقابلہ کیااورنہ کبھی کرسکتاہے۔ہم بطورانسان قدرت کے سامنے صرف کمزورنہیں بلکہ بہت کمزورہیں۔ہماری توسانسیں ہی اس رب کے حکم سے چل رہی ہیں۔اس رب کااختیارہے کہ وہ جب اورجہاں چاہیں ہمارااوراس کائنات کاکام تمام کردیں۔بلاکسی شک وشبہ کے ہماری یہ زندگیاں اس رب کی امانت اورہم پرایک بڑااحسان ہے،ہمارااٹھنابیٹھنا،چلناپھرنا،کھاناپیناحتیٰ کہ سانس لینابھی جب اس رب کااختیارتوپھررب کامقابلہ کیسے۔۔؟اس لئے قدرتی آفات کے سامنے تو بندنہیں باندھے جاسکتے لیکن انسانی آفات کے سامنے نہ صرف بندباندھے جاسکتے ہیں بلکہ ان کاڈٹ کرمقابلہ بھی کیاجاسکتاہے۔ہرشئے قدرتی آفت نہیں ہوتی،اس دنیاباالخصوص ہمارے اس ملک اورمعاشرے میں انسانی آفات بھی کچھ کم نہیں۔ہمیں انسانی آفات نے جتنانقصان پہنچایااتناہمیں کبھی قدرتی آفات نے متاثرنہ کیاہوگامگرافسوس ہم اپنی انسانی آفات کوبھی قدرت کے کھاتے میں ڈال کرانسان اورکائنات کی تباہی اوربربادی کاذریعہ وباعث بننے والے انسانی مجرموں کوبے گناہ ثابت کردیتے ہیں۔نکاسی آب کے نالوں اورآبی گزرگاہوں پرتجاوزات کی وجہ سے گاؤں،دیہات اورشہروں میں جوسیلاب آتاہے کیاوہ قدرتی آفت ہے۔؟جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے جوپہاڑسیلاب،لینڈسلائیڈنگ اوردیگرحادثات وواقعات کی وجہ بن رہے ہیں کیایہ بھی قدرتی آفت ہے۔؟ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لئے پہاڑوں کوہموارکرکے میدان بنانے سے ہرطرف جوماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے کیااسے بھی قدرتی آفت کہتے ہیں۔؟دریاکے منہ میں بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیاں، ہوٹلز،گیسٹ ہاؤسز اورگھر وں کاپانی کی بے رحم موجوں میں بہنا بھی کیاقدرتی آفت ہے۔؟ہم مانتے ہیں قدرتی آفات ہیں لیکن یہ جن سے ہماراروزواسطہ پڑرہاہے یہ قدرتی آفات نہیں۔ ہماری اپنی آفات ہیں۔ہمیں ہرواقعے اورحادثے کوقدرت کے کھاتے میں ڈال کوخودکوبری الذمہ کرنے کے بجائے اپنی طرف بھی دیکھناچاہئیے۔ایک دونہیں بہت سارے واقعات اورحادثات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کاباعث ہم خودبن رہے ہوتے ہیں۔ہم اگراپنے گریبان میں جھانک کراپنی ذمہ داریوں کواحسن طریقے سے نبھائیں،قدرت کے بنائے گئے نظام میں انگلیاں مارنے سے گریزکریں توروزروزیہ المناک حادثات اورواقعات رونمانہ ہوں۔موسموں نے اپنے تیوراوررخ بدل لئے لیکن ہم نے ابھی تک کچھ نہیں بدلہ۔موسمیاتی تبدیلیوں میں جینے کے لئے ہمارے پاس کیاہے۔؟دنیاکئی سال سے موسمیاتی تبدیلی کاڈھنڈوراپیٹ رہی ہے مگرہمیں اس کاکوئی احساس اورخیال ہی نہیں۔خودسوچیں موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے ہمارے پاس کیاتیاریاں ہیں۔ذرہ سی بارش ہوتوگاؤں اوردیہات کیاہمارے اکثرشہروں میں جگہ جگہ سیلاب،تالاب اوردریاکامنظرہوتاہے۔ایک دوگھنٹوں کی بارش بھی ہماراکوئی علاقہ اورشہربرداشت نہیں کرسکتااللہ نہ کرے اگرکبھی کہیں بارش کادورانیہ تھوڑاسابھی بڑھاتوپھرہمیں سرچھپانے کے لئے سایہ کیا۔؟پاؤں رکھنے کے لئے جگہ بھی نہیں ملے گی۔موسمیاتی تبدیلی کے لئے ہمارے پاس نہ پہلے کوئی تیاری تھی اورنہ اب ہے۔ہاں ہمارے پاس صرف ڈوبنے کی تیاری ہے اوروہ ہم نے جنگلات،آبی گزرگاہوں اورقدرتی نظام کوتباہ کرکے خوب کررکھی ہے۔اس لئے اگریہی حال رہاتوپھرہمیں تباہی میں ڈوبنے سے کوئی بچانہیں پائے گاکیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے کے لئے ہم پہلے ہی تباہی کے آخری دہانے پرکھڑے ہیں۔ 

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں