تحریر:عبداللہ حکیم حقانی
خیبر پختونخوا کے تمام بورڈز نے سال 2022 میں سالانہ امتحانات دوئم (Second Annual Exams) کا آغاز کیا۔ ان امتحانات سے نہ صرف طلبہ پر مالی بوجھ ڈالا جا رہا ہے بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سالانہ امتحانات اول میں طلبہ بڑی تعداد میں فیل ہو رہے ہیں۔
اس سال بھی اگر ابیٹ آباد بورڈ کے نتائج پر نظر دہرائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فرسٹ ایئر میں صرف 63 فیصد طلبہ کامیاب ہوئے، جبکہ سیکنڈ ایئر کے نتائج میں کامیابی کا تناسب 90 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس نمایاں فرق نے والدین، اساتذہ اور طلبہ کے ذہنوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ اس سال ایبٹ آباد بورڈ کی جانب سے نتائج آنے سے پہلے ہی ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس میں کہا گیا کہ اب صرف پاس ہونے والے ہی نہیں بلکہ جو طلبہ فیل ہیں وہ بھی "امپرومنٹ” امتحان دے سکتے ہیں۔ پہلے یہ سہولت صرف پاس طلبہ کے لیے مخصوص تھی، لیکن اب فیل طلبہ کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ بورڈ اس پالیسی کو مزید رجحان دینا چاہتا ہے تاکہ طلبہ کو مختلف مراحل میں بار بار امتحان دینے پر مجبور کیا جائے اور یوں آمدنی کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
گزشتہ سال کراچی کے میٹرک امتحانات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ وہاں بڑی تعداد میں طلبہ کو ناکام قرار دیا گیا، لیکن جب جماعتِ اسلامی نے بھرپور احتجاج کیا تو بورڈ انتظامیہ کو مجبوراً پسپائی اختیار کرنی پڑی اور ناکام طلبہ کو دوبارہ کامیاب قرار دیا گیا۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طلبہ کی کامیابی یا ناکامی اکثر ان کی صلاحیت پر نہیں بلکہ پالیسی ساز اداروں اور دباؤ پر منحصر ہے۔
عمومی تاثر یہی ہے کہ طلبہ کو جان بوجھ کر سالِ اول میں زیادہ تعداد میں فیل کیا جاتا ہے تاکہ وہ "سالانہ دو” امتحانات میں دوبارہ داخلہ فیس جمع کرائیں اور یوں یہ امتحانات محض آمدنی کا ذریعہ بن جائیں۔
یہ رویہ نہ صرف تعلیمی انصاف کے خلاف ہے بلکہ اس سے طلبہ میں ذہنی دباؤ، مایوسی اور تعلیمی بیزاری کو بھی فروغ ملتا ہے۔ اصل مقصد تعلیم اور طلبہ کی رہنمائی ہونا چاہیے، لیکن جب پالیسی کا رخ مالی فوائد کی طرف مڑ جائے تو تعلیم کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایبٹ آباد بورڈ اور دیگر تعلیمی ادارے اس غیر منصفانہ پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔ طلبہ کی کامیابی یا ناکامی صرف ان کی محنت اور کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ کسی مالی مفاد یا دباؤ کے تحت۔ بصورتِ دیگر یہ سلسلہ ہر سال ہزاروں طلبہ کے مستقبل کو نقصان پہنچائے گا اور پورے تعلیمی نظام کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے گا۔