تحریر: وحید مراد
یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ اگر پاکستان میں رٹّا سسٹم اتنا ناکارہ ہوتا تو ایسی تعلیم کی بدولت اتنے ماہرینِ تعلیم، سائنسدان، جرنیل، صحافی، دانشور اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ذہین افراد کیسے پیدا ہوئے؟ اور اگر دنیا بھر میں بھی یہی نظام غالب ہے تو وہاں کے بڑے فلسفی، سائنسدان اور ماہرین کیسے وجود پذیر ہوئے؟ اس سے ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید رٹّا سسٹم میں کوئی برائی نہیں۔ بظاہر یہ استدلال درست لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک مغالطہ ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ رٹّا سسٹم کوئی صدیوں پرانا طریقہ تعلیم نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔ سرمایہ دارانہ منڈی کو ایسے ادارے درکار تھے جو تعلیم کو ایک مشینی سانچے میں ڈھال کر طلبہ کو محض پرزے بنا دیں تاکہ وہ مارکیٹ میں ایک پیداواری یونٹ کے طور پر استعمال ہو سکیں۔ اس سوچ نے تعلیم اور علم کو روح کی بالیدگی اور شخصیت کی تعمیر کے بجائے معاشی پیداوار کا ذریعہ بنا دیا اور اسی جبری مادیت نے رٹا کلچر کو جنم دیا۔
پرانے زمانے میں تعلیم کا مقصد نوکری یا نمود و نمائش نہیں ہوتا تھا۔ یہ ان لوگوں کا شوق اور ذوق تھا جو حقیقتاً سیکھنا چاہتے تھے۔ نہ خاندان کا دباؤ تھا، نہ ریاست کی زبردستی۔ اسی آزادی اور محبت کے ماحول نے سقراط، بقراط، ارسطو، ابن سینا، رازی، خوارزمی اور جابر بن حیان جیسے عظیم فلسفیوں اور سائنسدانوں کو جنم دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو نصاب یا امتحانی رجسٹروں کے پابند نہیں تھے بلکہ مشاہدے، سوال کرنے، تجربے اور تخلیقی فکر کے ذریعے آگے بڑھے۔
آج تعلیم کا مقصد بدل گیا ہے۔ نوکری، گریڈز اور سماجی مقابلے نے ہر بچے کو ایک مشین میں بدل دیا ہے۔ والدین، معاشرہ اور ریاست سب اسے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں چاہے کسی بھی قیمت پر۔ یہی دباؤ تعلیم کو رٹّا بنا دیتا ہے۔ تاہم جدید دنیا میں وہ ممالک جو یکساں تدریس، سخت امتحانات اور محض ڈگری کے بجائے پروجیکٹس، پورٹ فولیو، استاد کی رائے اور مسلسل جائزہ جیسے طریقوں پر چلے وہاں طلبہ کی فکری آزادی اور تخلیقی صلاحیتیں بہت حد تک محفوظ رہیں۔
یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کسی نظام سے چند غیر معمولی لوگ نکل آنا اس نظام کی کامیابی کی دلیل نہیں ہوتا۔ اسے "Survivorship Bias” کہا جاتا ہے یعنی چند کامیاب مثالوں کو بنیاد بنا کر پورے نظام کو کامیاب قرار دینا جبکہ ناکام ہونے والے اکثریتی طلبہ کو نظر انداز کر دینا۔ اگر تعلیمی ادارے واقعی اتنے مؤثر ہوتے تو ان کا ہر اوسط درجے کا طالب علم عظیم انسان بنتا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں وہ کسی بھی نظام میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کی کامیابی ادارے یا رٹا سسٹم کی نہیں بلکہ ان کی خداداد صلاحیت اور خارجی وسائل کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ گھر کا علمی ماحول، اچھی زبان، بروقت رہنمائی، ذاتی دلچسپی اور مواقع تک رسائی وہ عوامل ہیں جو انہیں آگے لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند کامیاب مثالوں کی بنیاد پر پورے رٹّا نظام کو درست قرار دینا ایک غلط فہمی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں آمریت، نیم جمہوریت، قانون کی کمزوری، ناانصافی اور جرائم جیسے مسائل عام ہیں۔ ان ہی حالات میں کچھ بڑے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا یہ استدلال درست ہوگا کہ چونکہ انہی حالات میں چند لوگ کامیاب ہیں تو باقی سب کو بھی اسی حال پر چھوڑ دیا جائے؟ کیا غربت کو ختم نہ کیا جائے صرف اس لیے کہ چند لوگ امیر ہیں؟ کیا جہالت اور بدعنوانی کو جوں کا توں رہنے دیا جائے کیونکہ کچھ لوگ پھر بھی کامیاب ہو رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ جیسے سماجی اور معاشی ترقی کے لیے غربت اور ناانصافی کو ختم کرنا ضروری ہے ویسے ہی علمی اور فکری ترقی کے لیے رٹّا نظام کو بدلنا بھی ناگزیر ہے۔
انسانی فطرت مسلسل بہتری اور ارتقاء کی متقاضی ہے۔ تعلیم میں وہ تمام چیزیں جو تخلیقی صلاحیت اور فکری بالیدگی کو روکتی ہیں، بدلنا ضروری ہیں۔ رٹّا سسٹم بظاہر امتحان میں کامیابی دے سکتا ہے مگر عملی زندگی میں یہ انسان کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ نئی نسل کو اندازہ ہو چکا ہے کہ صرف یاد کردہ مواد سے وہ دنیا کے موجودہ تقاضوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں رٹے پر مبنی ڈگری پروگرامز کی طلب تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ ہمارے یہاں برسوں کی اسکولنگ کے باوجود بچے بنیادی خواندگی اور حساب میں پیچھے ہیں، جسے عالمی ادارے “Learning Poverty” کہتے ہیں۔
ماہرینِ تعلیم برسوں سے اس بات پر متفق ہیں کہ اصل تعلیم وہ ہے جو سوچنے، پرکھنے اور سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ یہی تعلیم نئی صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے نصاب اور تدریسی طریقوں کو بار بار بدل رہے ہیں تاکہ رٹّا ختم ہو اور حقیقی علم و تحقیق کو پروان چڑھایا جا سکے۔ پاکستان کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
تعلیم کا اصل مقصد باشعور، باکردار اور تخلیقی افراد پیدا کرنا ہے جو اپنی اور اپنے معاشرے کی تقدیر بدل سکیں۔ لیکن جب ایک ہی پیمانہ سب پر تھوپ دیا جائے اور صرف یادداشت کو کامیابی کا معیار بنا دیا جائے تو باقی صلاحیتیں دم توڑ دیتی ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے فلسفی اور سائنسدان نے عظمت اس لیے حاصل کی کہ اس نے سوال کرنے کی جرات کی، مشاہدہ کیا، تجربہ کیا اور رائج نظام سے آگے بڑھا۔ ہمارے لیے بھی ترقی کاراستہ اسی وقت کھلے گا جب ہم رٹّا کلچر کی قید سے آزاد ہوکر حقیقی تعلیم کو اختیار کریں گے ۔