تحریر: راشد خان سواتی
اس وقت پاکستان کا دل، صوبہ پنجاب، شدید ترین آبی تباہ کاریوں کی زد میں ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں، کھیت کھلیان زیرِ آب آ گئے ہیں اور دیہات و شہر ڈوب رہے ہیں۔ یہ کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی اور آبی جارحیت کا نتیجہ ہے۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر پانی چھوڑ کر پاکستان میں تباہی پھیلانے کی جو روش اختیار کی ہے، اس نے دنیا کے سامنے اس کے “سب سے بڑی جمہوریت” ہونے کے دعوے کا نقاب اتار دیا ہے۔
یہ محض زمینوں اور مکانات کا نقصان نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کے مقدس مقامات بھی اس آبی طوفان کی زد میں آ گئے ہیں۔ مگر افسوس کہ آر ایس ایس کے نظریات کے اسیر بھارتی حکمران مودی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عالمی طاقتوں اور اقوامِ عالم کے سامنے بلند بانگ دعوے کرنے والے بھی خاموش ہیں، گویا لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا ڈوب جانا ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اور بھی زیادہ حیران کن اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ علمی اور فکری برادری اس بڑے انسانی المیے پر خاموش ہے۔ وہ طبقہ جو انسانی اقدار اور عالمی امن کا پرچار کرتا ہے، اس معاملے پر کسی اجتماعی موقف یا احتجاج کے بجائے خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
پوری دنیا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات سے دوچار ہے۔ ایسے میں بھارت کی یہ آبی جارحیت فطرت کے حسن اور ماحولیات کے توازن کے خلاف ایک کھلی درندگی ہے۔ پانی کے ذریعے تباہی پھیلانے کی یہ پالیسی نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لئے بھیانک نتائج پیدا کرے گی۔ اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو اس کے اثرات آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوں گے۔
بھارت کی یہ آبی جارحیت صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ عالمی امن کے لئے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی برادری اس پر فوری ایکشن لیں اور بھارت کو اس درندگی سے باز رکھنے کے لئے سخت اقدامات کریں۔ بصورتِ دیگر جنوبی ایشیا ایک ایسے بحران میں داخل ہو سکتا ہے جس کے اثرات پوری دنیا تک پھیلیں گے۔