Skip to content

خون کی قیمت 30 روپے: تماشائی معاشرہ اور دو معصوم زندگیاں

شیئر

شیئر

تحریر: رابعہ سید

24 اگست کی شام رائیونڈ کی فضا ایک ایسی خبر سے دہل اٹھی جو دل کے نہاں خانوں تک کو جھنجھوڑ دینے والی تھی۔ محض 30 روپے کے تنازع پر دو جوان بھائیوں کی زندگیوں کا چراغ گل ہو گیا۔ واجد اور راشد… دو پھول جیسے جوان، جو اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے، ایک لمحے کی غفلت اور درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

یہ کہانی محض ایک خاندان کی نہیں، یہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی بے حسی اور انسانیت کے جنازے کی کہانی ہے۔ پولیس کے مطابق موضع رتی پنڈی کے 22 سالہ واجد اور 25 سالہ راشد نے ایک ریڑھی والے سے پھل خریدا۔ محض 30 روپے پر ہونے والا یہ جھگڑا دیکھتے ہی دیکھتے خون کی ہولی میں بدل گیا۔ ریڑھی بان تیمور اور اویس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان معصوم جوانوں کو ڈنڈوں سے اس قدر پیٹا کہ واجد موقع پر ہی دم توڑ گیا اور راشد شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لاہور منتقل ہوا۔ لیکن موت کا فرشتہ وہاں بھی اس پر مہربان نہ ہوا۔ ماں باپ کی آنکھوں کا سہارا چند ہی گھنٹوں بعد سرد لاش میں بدل گیا۔

یہ واقعہ ایک اور دردناک سچائی بھی آشکار کرتا ہے: وہاں کھڑے لوگ، جن کے ہاتھوں میں موبائل فون تھے، جھگڑے کو روکنے کی بجائے اس منظر کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔ کوئی آگے بڑھ کر خون بہنے سے نہ روک سکا۔ کسی کے دل میں یہ خیال نہ آیا کہ شاید دو جانیں بچ سکتی ہیں۔ معاشرے میں انسان کی جان کی قیمت اتنی گر چکی ہے کہ اب لوگ خون کے مناظر کو بس تماشے کی طرح دیکھتے ہیں۔

یہ سوال ہمارے ضمیر پر بجلی بن کر گرتا ہے: آخر یہ سلسلہ کب رکے گا؟ کب تک مائیں اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتی رہیں گی؟ کب تک بوڑھے باپ اپنے سہارا بننے والے بیٹوں کو کفن پہناتے رہیں گے؟ ہم کس سمت بڑھ رہے ہیں، جہاں انسانیت کی رمق بھی باقی نہیں رہی۔

آج واجد اور راشد کے والدین کی آنکھیں سوال کر رہی ہیں کہ ان کے بیٹوں کا قصور کیا تھا؟ وہ ماں، جو اپنے بیٹوں کے ہاتھوں کی خوشبو میں سکون پاتی تھی، آج ان کے جنازے اٹھا رہی ہے۔ باپ، جو ان کے سہارے بڑھاپے کے دن گزارنے کے خواب دیکھ رہا تھا، آج ٹوٹے خوابوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔

یہ صرف دو جانیں نہیں گئیں، یہ ہمارے سماج کے ماتھے پر ایک اور داغ لگا ہے۔ جب تک معاشرے میں انصاف فوری اور یقینی نہیں ہوگا، جب تک انسانیت کی قدر واپس نہیں آئے گی، ایسے واقعات بار بار رونما ہوتے رہیں گے۔ موبائل فون کے کیمروں کے پیچھے چھپی یہ بے حسی ہماری روح کو کھا رہی ہے۔

یہ کالم لکھتے ہوئے دل لرزتا ہے، انگلیاں کانپتی ہیں۔ سوچتی ہوں، کیا کل یہ کسی اور کا بیٹا نہ ہوگا؟ کیا کل کوئی اور ماں یوں تڑپتی نہ ہوگی؟ ہم سب کو سوچنا ہوگا۔ اس معاشرے کو بدلنے کے لیے اپنے اندر انسانیت کی وہ چنگاری پھر سے جلانی ہوگی جو شاید کب کی بجھ چکی ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں