تحریر: ابو نظام کھوجی
خیبرپختونخوا پولیس بالخصوص مانسہرہ پولیس کے سوشل میڈیا پیجز پر روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں گردش کرتی ہیں کہ فلاں تھانے کی ٹیم نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے منشیات فروش کو گرفتار کر لیا، فلاں ڈکیت کو ہتھکڑیوں میں جکڑ دیا گیا، یا فلاں ملزم اقدامِ قتل میں دھر لیا گیا۔ ان تصاویر اور پوسٹوں کو بڑے فخر اور دھوم دھام سے شائع کیا جاتا ہے، گویا پولیس نے کوئی عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ عوام بھی وقتی طور پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ مجرم پکڑے گئے، لیکن اصل حقیقت اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس پر کبھی پولیس یا سرکاری ادارے روشنی ڈالنے کی جرات نہیں کرتے۔
عدالتی ریکارڈ اور زمینی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ ایسے 90 سے 99 فیصد ملزمان عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ وہ واقعی معصوم ہوتے ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا بیمار اور کمزور نظام ہے۔ ناقص تفتیش، شواہد کو محفوظ کرنے میں کوتاہی، غیر تربیت یافتہ تفتیشی افسران، جان بوجھ کر چالان میں کمزوریاں چھوڑ دینا، سیاسی یا مقامی دباؤ، اور گواہوں کو ڈرا دھمکا کر یا خرید کر خاموش کرا دینا ایسے عوامل ہیں جو کسی بھی مضبوط کیس کو چند دنوں میں زمین بوس کر دیتے ہیں۔ یوں پولیس کی "کامیابی” چند تصاویر اور پریس ریلیز تک محدود رہ جاتی ہے، جبکہ عدالت میں وہی کیس مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔
اس تماشے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوام کو صرف گرفتاری کا شور سننے کو ملتا ہے، سزا کی کوئی خبر کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ پولیس اپنے پیجز پر بڑے زور شور سے ملزم کی گرفتاری کی تصویر لگاتی ہے لیکن جب وہی ملزم چند ہفتوں یا مہینوں بعد عدالت سے بری ہو کر دوبارہ اسی گلی کوچے میں نظر آتا ہے تو نہ پولیس کو شرم آتی ہے اور نہ ہی عوام کو وضاحت دی جاتی ہے۔ اس خاموشی نے ایک خوفناک تاثر کو جنم دیا ہے کہ پاکستان میں جرم کرنا کوئی بڑی بات نہیں، کیونکہ اگر پکڑے بھی گئے تو چند دن بعد آزاد ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہی چہرے بار بار انہی وارداتوں میں نظر آتے ہیں اور پولیس پھر اسی ڈرامے کو دہرا کر اپنی "کارکردگی” کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔
جرم اور سزا کے درمیان جو خلیج ہے، اس نے عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ پولیس کو انصاف کے ضامن کے بجائے صرف ایک دکھاوا کرنے والا ادارہ سمجھنے لگے ہیں۔ اصل کامیابی تب ہے جب ایک مجرم کو عدالت سے قرارِ جرم کے بعد سزا ملے، لیکن چونکہ پولیس اور پراسیکیوشن اپنا کام دیانتداری سے نہیں کرتے، اس لیے عدالت کے پاس سوائے بری کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ یوں ہر بری ہونے والا مجرم نہ صرف مزید طاقتور ہو جاتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو یہ پیغام دیتا ہے کہ جرم کر کے بھی آپ باعزت رہا ہو سکتے ہیں۔ یہ پیغام دراصل آئندہ کے مجرموں کو حوصلہ اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کا فوجداری نظام ایک ایسی تلخ حقیقت کا آئینہ دار ہے جس میں گرفتاریوں کا ڈھونگ تو روزانہ رچایا جاتا ہے لیکن سزا کا باب تقریباً خالی ہے خیبرپختونخوا پولیس بالخصوص مانسہرہ پولیس کے سوشل میڈیا پیجز پر آئے روز یہ خبریں نمایاں کی جاتی ہیں کہ فلاں ملزم منشیات کے ساتھ پکڑا گیا، فلاں ڈکیت گرفتار ہوا یا فلاں تھانے نے اقدامِ قتل کے ملزم کو ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ ان تصاویر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے کسی بڑی جنگ میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہو۔ لیکن عوام کو کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ انہی ملزمان کا کیا انجام ہوا، کتنے کو سزا ملی اور کتنے باآسانی عدالتوں سے بری ہو گئے۔ اصل کہانی گرفتاری کے بعد شروع ہوتی ہے، اور یہی وہ باب ہے جہاں انصاف کا چہرہ مسخ ہو کر رہ جاتا ہے۔
ناقص تفتیش اور پولیس کی ذمہ داری کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ایک کیس میں ایک نہایت اہم نکتہ اجاگر کیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ پاکستان میں ملزمان کی بریت کی سب سے بڑی وجہ پولیس کی ناقص اور غیر معیاری تفتیش ہے۔ عدالت کے ریمارکس تھے
"ناکام تفتیش کے نتائج ہمیشہ معاشرے کو بھگتنا پڑتے ہیں، اور اس کا ذمہ دار براہِ راست پولیس کا تفتیشی عملہ ہوتا ہے
اس فیصلے نے اس المیے کی طرف نشاندہی کی کہ جب تفتیشی افسر شواہد محفوظ کرنے میں کوتاہی کرتا ہے، گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کرتا یا ثبوت کو عدالت کے سامنے قابلِ قبول شکل میں پیش نہیں کرتا تو دراصل وہ خود ملزم کو بری کرانے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ ان مجرموں کا بوجھ اٹھاتا ہے جو سزا کے مستحق ہونے کے باوجود قانون کی گرفت سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
"شک کا فائدہ” اور سزا کا فقدان ایک کیس
میں سپریم کورٹ نے فوجداری انصاف کے بنیادی اصول کو ایک بار پھر دہرا دیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی بھی مقدمے میں معمولی سا بھی شک پیدا ہو جائے تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جائے گا۔ اس فیصلے میں گواہوں کے متضاد بیانات اور ناقص شواہد کے باعث عدالت نے کہا:
"اگر عدالت کو معمولی سا بھی شک ہو کہ ملزم نے جرم نہیں کیا، تو قانون اسے سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا۔”
یہ اصول بظاہر انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے، لیکن جب ناقص تفتیش اور کمزور شہادتیں معمول بن جائیں تو "شک کا فائدہ” دراصل ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے جس سے بڑے مجرم بھی باآسانی قانون سے بچ نکلتے ہیں، اور یوں عوامی اعتماد مزید مجروح ہو جاتا ہے۔
گواہوں کا تحفظ ایک خواب ایک کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے نے ایک کیس میں ایک بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گواہوں کے تحفظ کی کمی کے متعلق عدالت نے کہا
"جب تک گواہوں کو ریاستی سطح پر تحفظ نہیں دیا جائے گا، بڑے مجرموں کو سزا دلوانا ایک خواب ہی رہے گا
پولیس کی روایتی غفلت اور بدنیتی کے باعث گواہوں کے نام ظاہر کر دیے جاتے ہیں، انہیں دھمکایا جاتا ہے یا خرید لیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عدالت میں گواہ اپنے بیان بدل دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں انصاف کی امید محض ایک فریب رہ جاتی ہے۔
پولیس کی بدنیتی اور پراسیکیوشن کی کمزوری ایک کیس میں سپریم کورٹ نے اس پہلو پر سخت ریمارکس دیے کہ پولیس اور پراسیکیوشن کس طرح فوجداری مقدمات کو عدالتوں میں "ڈرامہ” بنا کر پیش کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا:
"پراسیکیوشن کی نااہلی اور پولیس کی بدنیتی نے فوجداری مقدمات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ عدالتوں کے سامنے وہ محض کاغذی کارروائی بن کر رہ گئے ہیں۔”
عدالت نے یہ بھی تجویز دی کہ ایسے تفتیشی افسران کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان ریمارکس کو نظرانداز کر دیا گیا اور یہ بدنظمی جوں کی توں قائم ہے۔
ریاستی اداروںکی نااہلی ایک کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے ریاستی اداروں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا
"اگر پراسیکیوشن کی موجودگی میں بھی ریاست کسی مجرم کو سزا نہیں دلا سکتی تو یہ پورے نظامِ انصاف پر سوالیہ نشان ہے۔”
اس کیس میں بھی کمزور شواہد اور ناقص گواہی کی بنا پر ملزم کو بری کر دیا گیا۔ عدالت نے حکومت کو متنبہ کیا کہ پراسیکیوشن کو فعال اور جواب دہ بنایا جائے، ورنہ یہ نظام مجرموں کے حق میں ایک ڈھال بن کر رہ جائے گا۔
یہ تمام فیصلے ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ پاکستان میں:
ناقص تفتیش
گواہوں کے تحفظ کی کمی
پراسیکیوشن کی نااہلی
پولیس کی بدنیتی مل کر مجرموں کو سزا دلوانے کے عمل کو تقریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔ پولیس گرفتاری کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے، لیکن عدالتوں نے بارہا واضح کیا ہے کہ اصل کامیابی سزا دلوانے میں ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پولیس اور پراسیکیوشن کے نظام کی یہ خرابیاں عوامی اعتماد کو کھوکھلا کر رہی ہیں اور آئینِ پاکستان کے بنیادی حقوق (آرٹیکل 9، 10-A اور 25) کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ اگر ریاستی ادارے اور قانون ساز ان عدالتی نشاندہیوں کے باوجود اصلاحی اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب عوام کا نظامِ عدل پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ اصل کامیابی گرفتاریوں کے ڈھونگ میں نہیں بلکہ سزا کے حصول میں ہے، اور جب تک یہ بنیادی حقیقت تسلیم نہیں کی جاتی، پاکستان میں انصاف ایک کھوکھلا نعرہ اور مظلوم کے لیے ایک زنجیر ہی رہے گا۔
یہ تمام فیصلے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان میں ناقص تفتیش، گواہوں کے تحفظ کی کمی، پراسیکیوشن کی نااہلی اور پولیس کی بدنیتی نے انصاف کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ پولیس گرفتاری کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے، لیکن عدالتوں نے بارہا واضح کیا ہے کہ اصل کامیابی سزا دلوانا ہے۔ عوامی اعتماد تب ہی بحال ہوگا جب پولیس، پراسیکیوشن اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں شفافیت اور دیانت داری سے کام کریں۔
اگر مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ عدالتی فیصلے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ پاکستان میں انصاف کا پورا ڈھانچہ بکھر چکا ہے۔ ناقص تفتیش، کمزور شواہد، بدنیتی پر مبنی ریکارڈ سازی اور گواہوں کے عدم تحفظ نے مجرم کو تحفظ اور مظلوم کو اذیت دے دی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے بلکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9 (زندگی اور آزادی کا تحفظ)، آرٹیکل 10-A (منصفانہ ٹرائل کا حق) اور آرٹیکل 25 (شہریوں میں مساوات) کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر ریاست نے بروقت اصلاحی اقدامات نہ کیے تو عوام کا اداروں پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور یہ قانونی کمزوریاں ہمیشہ مجرم کے لیے ڈھال اور مظلوم کے لیے زنجیر بنی رہیں گی۔
پاکستان کا موجودہ فوجداری نظام گرفتاریوں کے ڈھونگ اور سزا کے فقدان پر کھڑا ہے۔ پولیس میڈیا پر اپنی کارکردگی کا شور مچاتی ہے لیکن عدالتوں میں وہی کیس کمزور شواہد کی بنیاد پر زمین بوس ہو جاتا ہے۔ جب تک تفتیش کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا، گواہوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور پراسیکیوشن کو فعال و بااختیار نہیں کیا جاتا، اس وقت تک جرم اور سزا کا یہ کھوکھلا نظام عوام کا اعتماد بحال نہیں کر سکتا۔ اصل کامیابی گرفتاری میں نہیں بلکہ سزا میں ہے، اور یہی وہ پیمانہ ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احتساب ہونا چاہیے۔
یہ امر بھی غور طلب ہے کہ جب کسی بڑے مقدمے میں پولیس بڑے دعوے کے ساتھ گرفتاریوں کا اعلان کرتی ہے تو میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے انصاف مکمل ہو گیا۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عدالتوں میں جانے کے بعد انہی مقدمات کی بنیاد اتنی کھوکھلی نکلتی ہے کہ ملزمان چند ہی پیشیوں کے بعد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں یا مکمل بری قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے بلکہ معاشرے میں یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ طاقتور یا چالاک مجرم کبھی سزا نہیں پاتے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ محکمہ پولیس اور پراسیکیوشن کے افسران اپنی رپورٹنگ میں کتنی بار عوام کو یہ حقیقت بتاتے ہیں کہ کتنے مقدمات میں گرفتاری کے باوجود سزا ممکن نہ ہو سکی؟
اگر اعداد و شمار کھول کر سامنے رکھے جائیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ 90 فیصد سے زیادہ مقدمات ناکافی شواہد، ناقص تفتیش، یا کمزور گواہی کی بنیاد پر ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ادارے کا فوکس محض وقتی نمائش اور پریس کانفرنسز تک محدود ہے، انصاف کی فراہمی ان کی اصل ترجیح نہیں۔
عدلیہ کے فیصلے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ پولیس کو جدید خطوط پر تفتیشی مہارت اور سائنسی شواہد اکٹھے کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان فیصلوں کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔
ایک عام شہری سے سوال کیا جائے تو وہ کہے گا کہ ہمارے نظام میں "مجرم پکڑنے” اور "مجرم کو سزا دلوانے” کے درمیان ایک بہت بڑا خلا ہے ؟
اور اس خلا کا ذمہ دار سب سے پہلے محکمہ پولیس ہے جو اپنی ذمہ داری کو صرف آدھے راستے تک محدود سمجھتا ہے۔
لہٰذا یہ سوال آج بھی زندہ ہے اور مزید شدت اختیار کرتا ہے کہ محکمہ پولیس اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کو عوام کو یہ جواب دینا ہوگا کہ ان کی اصل کامیابی کس میں ہےصرف گرفتاری کرنے میں یا عدالت سے سزا دلوانے میں؟
کیونکہ جب تک سزا یقینی نہیں بنتی، تب تک گرفتاری کا ڈھول بجانا محض ایک فریب ہے، جس سے مجرم مضبوط اور عوام مزید کمزور ہوتے جاتے ہیں۔
اگر کسی ملزم کو عدالت بری کر دیتی ہے تو کیا اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقتاً بے گناہ تھا؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے۔ عدالتیں ہمیشہ شہادتوں اور دستیاب مواد کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں۔ اگر شہادتیں ناقص ہوں، گواہان کو تحفظ نہ دیا جائے، پولیس تفتیش غیر معیاری ہو یا پراسیکیوشن اپنا مقدمہ ٹھوس انداز میں پیش نہ کر سکے، تو قانون شک کا فائدہ ملزم کو دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ اصول انصاف کا بنیادی تقاضا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے سنگین جرائم کے اصل مجرم اسی خامیوں کی وجہ سے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو بری ہونے والے ہر شخص کے بے گناہ ہونے کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ بعض اوقات ملزمان کے خلاف ایسے شواہد موجود ہوتے ہیں جو تکنیکی بنیادوں پر ناقابلِ قبول قرار دیے جاتے ہیں، یا پھر ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً عدالت ملزم کو بری تو کر دیتی ہے، لیکن سماجی سطح پر یہ تاثر مضبوط ہو جاتا ہے کہ یا تو نظامِ انصاف کمزور ہے یا پھر پولیس اور پراسیکیوشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
اس پہلو پر محکمانہ اور عدالتی سطح پر سنجیدہ بحث ضروری ہے کہ جب عدالت کسی ملزم کو بری کرتی ہے تو اصل ذمہ داری کہاں عائد ہوتی ہے؟ کیا یہ پولیس کی ناقص تفتیش ہے، پراسیکیوشن کی کمزور حکمتِ عملی ہے، گواہوں کی عدم موجودگی ہے یا نظام میں مجموعی اصلاحات کی ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب دینا لازمی ہے تاکہ عوام کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی دور ہو سکے کہ بری ہونے والے تمام لوگ "بے گناہ” ہیں۔
آخر میں یہ سوال محکمہ پولیس اور پراسیکیوشن سے براہِ راست پوچھنا لازم ہے کہ اگر ملزمان عدالتوں سے مسلسل بری ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو اصل مجرم سزا نہیں پا رہے یا پھر بے گناہوں کو مقدمات میں پھنسا کر سالہا سال عدالتی کارروائی میں الجھایا جا رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں سب سے بڑا نقصان عوام اور ریاست کو ہی ہوتا ہے۔
یہ صورتحال اب کسی اتفاق یا معمولی کوتاہی کا نتیجہ نہیں لگتی بلکہ ایک منظم رویہ بن چکی ہے کہ محکمہ پولیس اصل مجرموں تک پہنچنے کے بجائے جھوٹی، من گھڑت اور وقتی کارروائیاں کر کے میڈیا میں اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بظاہر بڑے بڑے دعووں اور گرفتاریوں کی خبریں تو شائع کر دی جاتی ہیں لیکن جب یہ کیس عدالت میں آتے ہیں تو ناقص تفتیش، کمزور شواہد، جھوٹے گواہوں اور قانونی خامیوں کی بنا پر ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف اصل مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں بلکہ بے گناہ شہریوں کو بھی بلاوجہ ذہنی اذیت، مالی نقصان اور سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ پولیس کے نزدیک انصاف سے زیادہ اہمیت وقتی شہرت اور "کارکردگی” دکھانے کی ہے، جو ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کر رہی ہے اور عدالتی نظام پر بھی اضافی بوجھ ڈال رہی ہے۔ اگر اس روش کو روکا نہ گیا تو یہ سلسلہ نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے بلکہ ریاستی انصاف کے پورے ڈھانچے کو بھی متزلزل کر سکتا ہے۔
یوں مجموعی جائزہ لینے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ محکمہ پولیس کی یہ وقتی اور نمائشی کارروائیاں محض خبروں اور رپورٹوں تک محدود ہیں، جن کا انصاف یا اصل مجرموں کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ جھوٹی اور کمزور مقدمہ بازی کے باعث ملزمان بری ہو جاتے ہیں، بے گناہ شہریوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور عوام کا اعتماد اداروں پر سے اٹھ جاتا ہے۔ نتیجتاً پولیس کا ادارہ، جو عوام کے جان و مال کا محافظ ہونا چاہیے، الٹا عوامی خوف اور عدم اعتماد کی علامت بن رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رویے کا سخت محاسبہ کیا جائے، شفاف اور غیرجانبدار تفتیشی نظام قائم کیا جائے اور پولیس کو سیاسی و ذاتی مقاصد کے بجائے حقیقی انصاف کی راہ پر ڈالا جائے، وگرنہ یہ رویہ مستقبل میں معاشرتی انتشار اور انصاف کے نظام کی مکمل تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر ملزم بری ہو گیا تو کیا وہ بے گناہ تھا؟
قانون کا اصول ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر بریت ناقص تفتیش، کمزور شواہد اور پراسیکیوشن کی نااہلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یوں ہر بری ہونے والا شخص لازمی طور پر بے گناہ نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ اصل مجرم شواہد کی خرابی کی وجہ سے آزاد ہو جاتا ہے، جو انصاف کے منہ پر ایک تھپڑ ہے اور مظلوم فریق کے لیے ایک عمر بھر کی اذیت۔
اصل کامیابی سزا میں ہے، گرفتاری میں نہیں
پولیس کا فوکس صرف گرفتاری دکھانے تک محدود ہے جبکہ عدالتوں نے بارہا واضح کیا ہے کہ اصل کامیابی سزا دلوانے میں ہے۔ گرفتاریوں کا شور محض وقتی فریب ہے جو عوامی اعتماد کو کھوکھلا کرتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9، 10-A اور 25 کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ شہریوں کی زندگی، آزادی اور مساوات کا تحفظ کرے، لیکن جب مجرم سزا سے بچ نکلیں تو یہ آئینی تقاضے بری طرح پامال ہو جاتے ہیں۔
یہ صورتحال محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم رویہ بن چکی ہے جس کا مقصد پولیس کے لیے میڈیا پر کارکردگی دکھانا ہے، نہ کہ عوام کو انصاف فراہم کرنا۔ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رویہ ریاستی انصاف کے ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔
تفتیش کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
گواہوں کو ریاستی سطح پر تحفظ دیا جائے۔
پراسیکیوشن کو فعال اور جواب دہ بنایا جائے۔
ناقص تفتیش کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
کیونکہ جب تک سزا یقینی نہیں بنتی، تب تک گرفتاری کا ڈھول بجانا محض ایک ڈھونگ ہے جس سے مجرم مضبوط اور عوام کمزور ہوتے ہیں۔