Skip to content

دھرتی ماں سے معافی

شیئر

شیئر

تحریر : ڈاکٹر عادل سیماب

دھرتی ماں!
آج میں تیرے سامنے شرمندہ کھڑا ہوں۔ سیلاب زدہ بستیوں کی ٹوٹی چھتیں اور روتے ہوئے بچے جب میری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو مجھے اپنے ہاتھوں پر خون کے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خون صرف اُن لوگوں کا نہیں جو آج اپنے گھروں سے محروم ہیں، یہ تیرے زخموں کا خون ہے، جو ہم سب کی غفلت اور خود غرضی سے بہہ رہا ہے۔

میرا اپنا خاندان اس جرم میں شریک رہا۔ کبھی گھروں کی تعمیر کے بہانے، کبھی پرمٹ کے پردے میں، اور کبھی “ونڈ فالز” کے نام پر ہم نے درختوں کا صفایا کیا۔ میرے بھتیجے، بھانجے، بہنوئی… سب نے اپنے اپنے حصے کا ہاتھ ڈالا۔ ہم نے پہاڑوں کے بدن سے ان کا سبز لباس اتار دیا، جنگلات کے سینے کو چیر دیا، اور فطرت کی حفاظت کے بجائے اُس کا استحصال کیا۔

آج جب بارش کی بوندیں رحمت کے بجائے زحمت بن گئی ہیں، جب دریاؤں نے بستیاں نگل لیں اور زمین نے بوجھ اُٹھانے سے انکار کر دیا، تو میں سوچتا ہوں کہ اس سب میں میرا بھی حصہ ہے۔ یہ سیلاب محض قدرت کا قہر نہیں، یہ ہمارے اعمال کا جواب ہے۔

لیکن دھرتی ماں! میں تیری دہلیز پر معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ ہم نے تیرا قرض چکانے کے بجائے تجھے زخمی کیا۔ مگر ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سمت بدلیں۔ اگر ہم سب مل کر درخت لگائیں، پانی بچائیں، زمین کو اُس کا حق واپس دیں، تو شاید تیرے زخم بھرنے لگیں۔

میں ہر گرتی ہوئی لاش سے معافی مانگتا ہوں۔
میں ہر اُٹھتے ہوئے جنازے کے سامنے شرمندہ ہوں۔
میں ہر اُس خاندان سے شرمسار ہوں جو آج بے گھر ہو کر آسمان تلے پڑا ہے۔

یہ زخم صرف اُن کے نہیں، یہ زخم میری زمین کے ہیں۔ میں اور میرا قبیلہ، ہم سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ ہم نے جنگلات کا سینہ چاک کیا، پہاڑوں کے بدن سے اُن کا لباس نوچا، اور درختوں کو گرا کر اپنی آرام دہ زندگیاں بنائیں۔ آج وہی درختوں کی محرومی، بارشوں کا قہر اور دریاؤں کی طغیانی بن کر لوٹ آئی ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں