رابعہ سید
عبدالرحمن ایک معصوم، پیارا اور حساس بچہ ہے۔ ابھی اسے ہمارے گھر آئے ایک ماہ ہی ہوا ہے مگر یوں گھل مل گیا ہے جیسے برسوں کا تعلق ہو۔ کچن میں قدم رکھوں تو بنا کہے ساتھ آ کھڑا ہوتا ہے۔ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کبھی برتن سنبھالتا ہے تو کبھی میز صاف کرتا ہے۔ اپنی پلیٹ، کپ اور چمچ خود دھو لیتا ہے۔ اپنا کمرہ اور چیزیں سمیٹ کر ترتیب دینا اسے خوب آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بچپن سے ہی اسے ذمہ داریوں کا عادی بنایا گیا ہے۔
عبدالرحمن کو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ اماں ابا ہمیں بھی یہی سکھاتے تھے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر کے کام آنا بھی لازمی ہے۔ اور یہ تربیت صرف بیٹیوں کے لیے مخصوص نہیں تھی بلکہ بیٹے کو بھی برابر ساتھ لگایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عملی زندگی میں ہم بہن بھائیوں کو کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی سنبھالی اور گھر کے کئی کام بھی۔ بیماری اور کمزور صحت کے باوجود یہ سلیقہ والدین کی ہی محنت کا نتیجہ ہے۔
لیکن آج کل گھروں میں یہ روایت کمزور پڑ گئی ہے۔ عام رویہ یہ ہے کہ بچے صرف پڑھائی کریں اور باقی سب والدین یا ملازموں کے ذمے چھوڑ دیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ اگر بچہ کچن سے پانی کا گلاس لے آئے یا برتن اٹھا دے تو اس کا وقت ضائع ہو جائے گا، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بچے کو چھوٹے موٹے کاموں میں شامل کرنا اس کی تربیت کا بنیادی حصہ ہے۔ یہی کام اس کے اندر احساسِ ذمہ داری، خود اعتمادی اور عملی زندگی کے لیے تیاری پیدا کرتے ہیں۔
سوچئے! جو بچہ اپنے جوتے صاف کرنا نہ جانتا ہو، اپنا کمرہ نہ سمیٹتا ہو اور ہر وقت دوسروں پر انحصار کرتا ہو، وہ کل کو اکیلا پڑنے پر زندگی کی مشکلات سے کیسے لڑ سکے گا؟ یہی وجہ ہے کہ بعض بچے جب شہر یا ملک سے باہر پڑھائی یا کورس کے لیے جاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتے۔ دوسری طرف جس بچے کو بچپن سے گھر کے ہلکے پھلکے کاموں کا عادی بنایا جائے، وہ زندگی کے بڑے امتحانوں میں بھی ثابت قدم رہتا ہے۔
بچوں کی ذمہ داری اور ماہرین کی تحقیق
ایک ماں یا باپ کے طور پر کبھی دھیان دیجیے جب آپ اپنے بچے سے کھانے کے بعد دسترخوان اٹھانے یا گندے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالنے کو کہتے ہیں تو ان کا ردِعمل کیسا ہوتا ہے؟ اگر وہ بیزاری یا چڑچڑا پن دکھاتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ انہیں گھر کے کام "بورنگ” لگتے ہیں۔
امریکی محقق جولی لیتھ کوٹ ہائمز کے مطابق جو بچے گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں، وہ آگے چل کر زیادہ کامیاب، خودمختار اور ذمہ دار بالغ افراد بنتے ہیں۔ ان کے اندر ٹیم ورک، تعاون اور ہمدردی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے اور وہ زندگی کے چیلنجز سے گھبراتے نہیں۔
اس کے برعکس، جن بچوں کے حصے کا کام والدین یا ملازم کر دیتے ہیں، ان کے ذہن میں یہ تاثر بیٹھ جاتا ہے کہ دوسروں سے اپنا کام کروانا بالکل جائز ہے۔ یوں وہ نہ ذمہ داری سیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی زندگی کے اصل امتحانوں کے لیے تیار ہو پاتے ہیں۔
اسلامی تعلیم اور تربیت کا توازن
اسلامی تعلیمات بھی ہمیں یہی سکھاتی ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔” (بخاری و مسلم)
یہ حدیث والدین کو جھنجھوڑتی ہے کہ اولاد کی تربیت محض اسکول بھیج دینے کا نام نہیں، بلکہ ان کے اندر خود انحصاری، شکر گزاری اور ذمہ داری پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر بچے کو ہر وقت تحفظ کے خول میں رکھا جائے، ہر غلطی سے روکا جائے اور ہر کام اس کے حصے کا والدین خود کر لیں تو یہ "نگہبانی” کا حق ادا کرنا نہیں بلکہ شخصیت کو کمزور کرنا ہے۔
تربیت کی حکمت
والدین کا اصل کردار یہ ہے کہ بچے کو محبت کے ساتھ اور حکمت سے آہستہ آہستہ گھریلو ذمہ داریوں کا عادی بنائیں۔ چھوٹے چھوٹے کام جیسے برتن کچن میں پہنچانا، بستر سمیٹنا، مہمان کے لیے دروازہ کھولنا یا جوتے صاف کرنا ، یہ بظاہر معمولی مشقیں ہیں، لیکن انہی سے شخصیت میں اعتماد، خودداری اور تعاون پیدا ہوتا ہے۔
یاد رکھیے، اگر بچے ہر وقت خادموں پر انحصار کریں گے تو ان کے اندر کاہلی، خود غرضی اور غرور جنم لے گا۔ لیکن اگر والدین محبت اور حکمت کے ساتھ انہیں ذمہ داری کا عادی بنا دیں تو یہی چھوٹی سی تربیت بڑے خوابوں اور کامیابیوں کی بنیاد رکھتی ہے۔
اگر ہم اپنے بچوں کو صرف "کتابی تعلیم” تک محدود رکھیں گے اور زندگی کے عملی پہلوؤں سے محروم کریں گے تو وہ کل کو نہ گھر سنبھال پائیں گے اور نہ ہی معاشرہ۔ لیکن اگر ہم نے انہیں چھوٹے ہاتھوں سے بڑے کام سکھا دیے تو یہی چھوٹی تربیت کل کے بڑے خوابوں کی بنیاد بنے گی۔
عبدالرحمن جیسے معصوم بچے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر تربیت صحیح سمت میں ہو تو ایک ننھا سا دل بھی زندگی کے بڑے بڑے امتحانوں میں سرخرو ہونے کے قابل بن سکتا ہے۔