تحریر: ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان کے مختلف حصوں میں بادل پھٹنے اور سیلاب کی جو خبریں سامنے آ رہی ہیں، وہ دل دکھانے والی ہیں۔ کہیں گھر پانی میں ڈوبے ہوئے، کہیں سڑکیں دریا بنی ہوئیں یہ مناظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے پاکستان کو اپنا نشانہ بنا لیا ہو۔ لیکن کیا یہ صرف قدرت کا کھیل ہے، یا ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس تباہی کو دعوت دی ہے؟
پاکستان میں سیلاب کوئی نئی بات نہیں۔ 2010، 2011، 2020، 2022 — ہر چند سال بعد سیلاب آتا ہے، تباہی مچاتا ہے، اور چلا جاتا ہے۔ ہر بار حکومتیں امداد کا اعلان کرتی ہیں، بین الاقوامی ادارے فنڈز دیتے ہیں، اور پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ لیکن دو ہزار پچیس کا سیلاب کچھ الگ ہے۔ اس بار صرف بارشیں ہی نہیں، بلکہ کلاؤڈ برسٹ کے واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں، جو پہلے کم ہی سننے میں آتے تھے۔ اس سیلاب نے خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر اور اردگرد کے علاقوں میں زندگی الٹ دی ہے۔ گھنٹوں نہیں—ایک ہی گھنٹے میں آسمان نے جتنا قہربرسایا، پورا سال اتنا نہیں برستا۔ بونیر میں گھروں کی چھتیں، مویشیوں کے باڑے، اور پہاڑی راستے سب ایک ہی شور میں بہہ گئے۔ مقامی حکام کی فہرستیں لمبی ہوتی گئیں سیکڑوں جانیں جا چکیں، درجنوں لاپتہ، اور آنے والی بارشوں کی وارننگیں دل دہلا دینے کے لیے کافی۔ سرکاری بیان ہو یا بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹس.اعداد مختلف ہو سکتے ہیں، کرب ایک ہی ہے یہ اس سال کے مون سون کی اب تک کی سب سے ہولناک جھڑی تھی اور اس کے اثرات ابھی تھمنے والے نہیں۔
کلاؤڈ برسٹ آخر ہے کیا بلا؟ آسان بات یہ کہ فضا میں نمی، عدمِ استحکام اور پہاڑی رکاوٹیں مل کر ایسے بادل بَناتی ہیں جو چند کلومیٹر کے رقبے پر ایک گھنٹے میں سو ملی میٹر سے زیادہ پانی انڈیل دیتے ہیں یعنی اوپر بادل، نیچے ڈھلوان، درمیان میں بستیاں؛ نتیجہ آپ کے سامنے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی پیش گوئی نقطۂ نظر سے تقریباً ناممکن ہے، لیکن ان کی شدت اور تکرار گلوبل وارمنگ سے بڑھ رہی ہے۔ ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ ہوا میں نمی رکھنے کی صلاحیت تقریباً سات فیصد بڑھ جاتی ہے، تو پھر بارش معمولی کیوں برسے؟ وہ تو ٹوٹ کر ہی برسے گی۔ آسمان کا یہ غصہ ہمیں بتاتا ہے کہ قدرت کا توازن دراصل ہماری بے پروائی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قدرتی آفات کے اس بڑھتے ہوئے سلسلے میں گلوبل وارمنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے خود کے کیے گئے کاموں کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔
اب ذرا اپنے گھر کی خبر سن لیجیے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق 26 جون سے 17 اگست تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلابی واقعات سے مجموعی اموات سیکڑوں میں جا پہنچی ہیں، ہزاروں مکانات جزوی یا مکمل متاثر، پل اکھڑ گئے، اور صرف خیبرپختونخوا میں سڑکیں سینکڑوں کلومیٹر تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں۔ بونیر، سوات، شانگلہ، گلگت بلتستان—نام بدلتا ہے، منظر ایک ہی ہے ملبے میں دبے گھر، دریا میں بہتے پل، اور کھلے آسمان تلے خیمہ بستی۔
حکومت نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ یہ فریاد بونیر کے متاثرین کی رہی۔ حکام کا کہنا ہے کہ بارش اتنی تیز اور اچانک تھی کہ بروقت انخلا ممکن نہ رہا۔ سچ یہ ہے کہ کچھ واقعات میں بروقت وارننگز واقعی ناکافی ثابت ہوئیں، کچھ میں رسائی مسئلہ بنی، اور کچھ میں ہمارے سماجی رویّے—”یار، کچھ نہیں ہوتا” جان لیوا ثابت ہوئے۔ 2022 یاد ہے؟ جب ملک بھر میں سیلاب سے کم از کم 1700 جانیں گئیں، معاشی نقصان اربوں ڈالر میں گنا گیا، اور سندھ و بلوچستان کے دیہات مہینوں پانی میں ڈوبے رہے۔ وجوہات پر آئیے تو بین الاقوامی اور گھریلو، دونوں آئینے سامنے رکھنا پڑیں گے۔ دنیا بھر میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ا س موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین برسوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ہیوی پریسیپیٹیشن ایونٹس بڑھیں گے۔ شمالی پاکستان میں درجۂ حرارت بڑھنے سے برف پگھلتی ہے، جھھیلیں بنتی ہیں، اور پھر ایک دن بندھن ٹوٹتا ہے. یو این ڈی پی کے منصوبے سینکڑوں حفاظتی ڈھانچوں، گلیشیئر، لیک آؤٹ برسٹ فلڈ ، ہائیڈرو میٹرک آلات، اور کمیونٹی وارننگ سسٹمز کی بات کرتے ہیں، مگر یہ سب اسی دن کام آئیں گے جب ہم خطرہ زوننگ کو بطور قانون مانیں گے اور تعمیرات کو اُس کے مطابق کریں گے۔
ہم نے درختوں کو اتنا کاٹا ہے کہ اب زمین پانی جذب نہیں کر پاتی۔ شمالی علاقوں میں غیرقانونی طور پر جنگلات کی کٹائی جاری ہے، اور حکومتی ادارے خواب غفلت میں ہیں. پہاڑی ڈھلوانوں پر بے ہنگم تعمیرات، دریا کے کناروں پر تجاوزات، نالوں پر پکی چھتیں، اور پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ پانی دعا سلام کر کے گزر جائے۔ ہمارے نالے اور دریا گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ کوئی صفائی نہیں، کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ جب بھاری بارش ہوتی ہے، تو پانی کو نکلنے کا راستہ نہیں ملتا، اور یہ گلیوں اور گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ناانصافی جاری ہے۔ کاربن کے بڑے اخراج کنندہ ممالک اپنی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ قائم ہوا ہے، ابتدائی رقمیں بھی آئیں، مگر جن کے گھروں میں چھت نہیں، ان کے لیے اعلانات کمبل کے سوراخ بند نہیں کرتے۔ دوسری طرف ہم خود، اپنے مقامی سیاسی و انتظامی فیصلوں سے، برسوں سے قدرتی نالوں پر پکے گھر بستیاں آباد کرتے آئے ہیں، کاشتگاہیں بناتے، راستے بدلتے، اور پھر گلہ کرتے ہیں کہ پانی نے راستہ کیوں نہ بدلا۔ ہر بار سیلاب آنے کے بعد وزیراعظم کی ٹیم ہنگامی اجلاس بلاتی ہے، امداد کے اعلانات ہوتے ہیں، اور پھر چند ہفتوں بعد سب کچھ بھول جاتا ہے
جب پانی دروازے پر آ جائے تو خیمے، خوراک کے پیکٹ، عارضی شیلٹر، اور متاثرین کی رجسٹریشن اور صوبائی اداروں کی جانب سے ریسکیو، خیمہ بستیوں اور امدادی اشیا کی فہرستیں لیکن ہمیں اس سے آگے بڑھ کر قبل ازآفت منصوبہ بندی چاہیے خطرہ زوننگ، اراضی استعمال کے سخت نفاذ، ابتدائی وارننگ سسٹمز کی رسائی، مقامی رضاکار نیٹ ورک. ہم اکثر تب جاگتے ہیں جب پانی ہمارے ڈرائنگ روم تک آ جاتا ہے۔ ہم سڑک کے بیچ سیلفی پل کھڑا کر لیتے ہیں مگر نالے کا منہ کھلوانے کو کوئی وزیر نہیں آتا۔ ہماری میونسپل فلاسفی یہ ہے کہ "جتنا ڈھانپو گے اتنا چمکے گا” نتیجہ یہ کہ بارش آتی ہے تو شہر سمندر کے نظارے دکھاتے ہیں۔ خبر یہ نہیں کہ سڑکیں ندی بن گئیں؛ خبر یہ ہے کہ ہم نے ندیوں کو سڑک سمجھ لیا تھا۔ کیادو ہزار دس کے سیلاب کے بعد کوئی مستقل حل نکالا گیا؟ نہیں! دو ہزار بائیس کے سیلاب کے بعد کیا کوئی بڑا ڈیم بنا؟ نہیں! ہم صرف ردعمل دیتے ہیں، پیشگی اقدامات نہیں کرتے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے خیبرپختونخوا میں "بلین ٹری سونامی” شروع کیا جس کے تحت تین لاکھ پچاس ہزار ہیکٹر سے زائد رقبہ بحال ہونے کی بین الاقوامی توثیق ہوئی؛ بعد میں وفاق میں "ٹین بلین ٹری” پروگرام لانچ ہوا، جسے اقوامِ متحدہ کے ماحولیات پروگرام نے بھی نمایاں کیا۔ شاباش ضرور بنتی ہے،دوسری طرف، سچ یہ بھی ہےکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران بھی شہروں کی منصوبہ بندی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ اور سچ یہ بھی ہےکہ اکیلا درخت بادل نہیں روکتا؛ جنگلات کی بحالی ڈھلوانوں کو باندھتی ہے، لینڈ سلائیڈنگ کم کرتی ہے، سیلاب کی شدت نرم کر سکتی ہےمگر جب کلاؤڈ برسٹ ہو، شہری منصوبہ بندی کمزور ہو، اور نالے بند ہوں تو درخت بھی سوالیہ نشان بن جاتے ہیں کہ مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟
پاکستان کے اتحادی، مالی ادارے، ہمسائےسب کا حصہ بھی اس کہانی میں ہے۔ عالمی مالیاتی و ترقیاتی ادارے سیلابِ دو ہزار بائیس کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے لیے رقم دے رہے ہیں؛ سندھ میں گھروں کی تعمیرِ نو کے لیے اضافی فنڈنگ کی مثال سامنے ہے؛ ورلڈ بینک نے طویل شراکت داری فریم ورک میں موسمیاتی لچک کو مرکزی ہدف بنایا۔ لیکن ہمیں امداد کو بھی جوابدہ بنانا ہے. یہ حادثہ نہیں، پیٹرن ہے۔ آبادی کو خطرہ زونز سے نکالنے کے فیصلے کی سیاسی قیمت ہے تو اٹھائیے؛ تعمیرات کے بائی لاز کو کاغذ نہیں، کنکریٹ بنائیے؛ برساتی نالوں اور دریاؤں کے اصلی راستے بحال کیجیے؛ کمیونٹی بیسڈ وارننگ سسٹم ہر وادی اور قصبے تک پہنچائیے؛ اسکولوں میں سیلابی مشقیں کرائیے؛ اور جنگلات کی بحالی کو "سیلفی مہم” کے بجائے واٹر شیڈ مینجمنٹ کا پروگرام بنائیے. ساحلی علاقوں میں مینگرووز کے جنگلات کاربن بھی پکڑتے ہیں اور طوفانی لہروں کی ڈھال بھی بنتے ہیں یہ "سبز باڑ” آج نہیں لگائیں گے تو کل پانی دیوار بن جائے گا۔
اگر ہم نے اب بھی سبق نہیں سیکھا تو اگلے سیلاب میں بھی ہم یہی کہتے رہ جائیں گے: "یہ تو اللہ کا عذاب ہے!” جبکہ حقیقتاً یہ ہماری اپنی غفلت کا نتیجہ ہے اس کی تباہی ہماری اپنی کمزور پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔۔ آسمان کو ہماری سیاست نہیں آتی، وہ تو بس برستا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم بہنے کے بجائے سنبھلنا کیوں نہیں سیکھتے؟ آخر میں ہماری، شاید آپ کی بھی، چھوٹی سی التجا کہ اگلی بار جب ہم ترقی کے نام پر کسی نالے پر چھت ڈالیں یا دریا کی باہوں میں پلاٹ بیچیں تو یاد رکھیں کہ پانی کو اپنے گھر کا راستہ ہم نے خود دکھایا ہوتا ہے۔ اور جب آسمان ٹوٹ کر برستا ہے تو وہ کسی سیاسی جماعت کے جھنڈے نہیں دیکھتا؛ وہ صرف ڈھلوان، نالہ اور نکاسی دیکھتا ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں گی، شعور اگر نہ بدلا تو ہم ہر مون سون پر یہی کالم دوبارہ لکھیں گے—کچھ نئے اعداد، کچھ پرانے آنسو، اور وہی سوال کہ ہم نے سیکھا کیا؟
ڈاکٹر جزبیہ شیرین پائیدار ماحولیات اور انسانی حقوق کے شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر معروف محقق ہیں۔ وہ پیکنگ یونیورسٹی میں تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ گلوبل پیس بلڈنگ کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ ان سے مندرجہ بالا ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔