عمرخان جوزوی
ہماری قسمت واقعی بہت خراب ہے،ایک توہمیں اس صوبے میں حکمران ایسے نااہل،بے حس اورلاپرواہ ملے اوپرسے روزکسی نئے حادثے،واقعے اورسانحے سے ہماراواسطہ بھی پڑرہاہے۔ہم ابھی تک سوات سانحے کونہیں بھولے تھے کہ صوبے میں طوفانی بارش اورسیلاب کی تباہ کاریوں نے ہمارے دامن میں وہ وہ غم ڈال دیئے ہیں کہ جنہیں برداشت کرنے کی اب ہم میں سکت بھی نہیں۔ہمارے آبائی ضلع بٹگرام،مانسہرہ،بونیر،سوات اورباجوڑسمیت صوبے کے دیگرعلاقوں میں سیلاب نے جوتباہی مچائی ہے اسے دیکھ کردل خون کے آنسورونے لگتاہے۔ان علاقوں میں درجنوں معصوم بچے،جوان،مائیں،بہنیں اوربیٹیاں لمحوں میں سیلاب کی نذرہوگئی ہیں،بٹگرام سے سوات اورشانگلہ سے بونیروباجوڑتک گاؤں کے گاؤں،بستیوں کی بستیاں اجڑچکی ہیں اوراس بے رحم سیلاب میں خاندانوں کے خاندان ڈوب چکے ہیں۔ان سانحات میں سینکڑوں افرادشہیداوردرجنوں لاپتہ ہوگئے ہیں،نعشوں کے ڈھیراورہرطرف تباہی کے مناظر،صوبے میں گویا قیامت کامنظرہے۔سیلاب زدہ علاقوں میں جہاں کل تک گھراورجیتے جاگتے وہنستے مسکراتے انسان تھے اب وہاں ہرطرف تباہی ہی تباہی اوربربادی کے نشان ہیں۔بارشیں یہاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں،ندی نالوں میں طغیانی بھی یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس باراس صوبے میں بارشوں سے جوتباہی ہوئی ہے ایساتاریخ میں کبھی پہلے نہیں ہوا۔ہمارااپناچودہ اگست جشن آزادی کادن طوفانی بارش اورگلیوں میں سیلاب آنے کی وجہ سے گھرمیں گزرا۔بٹگرام،مانسہرہ،سوات،بونیراورباجوڑ میں توزیادہ تردیہی وپہاڑی علاقے ہیں اورایسے علاقوں میں اس طرح کے موسم میں لینڈسلائیڈنگ اورطغیانی کے امکانات ہروقت موجود رہتے ہیں لیکن دیہی وپہاڑی علاقوں سے ہٹ کربھی اگرہم خیبرپختونخواکے شہری علاقوں کودیکھیں توایسے موسم اورہنگامی حالات میں یہ بھی انسانوں کے لئے کوئی محفوظ نہیں۔ماناکہ قدرتی آفات کاکوئی مقابلہ نہیں پراپنی طرف سے حفاظتی اقدامات یہ توہرانسان کے بس اوروس میں ہے مگرافسوس کہ پہاڑی اوردوردرازعلاقوں کے ساتھ صوبے کی شہری آبادی میں بھی اس طرح کے موسم اورحالات سے نمٹنے کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں۔طوفانی بارش اورسیلاب کے معاملے میں ہمارے ریسکیوانتظامات نہ ہونے کے برابرہے اوریہ حقیقت میں ہم سانحہ سوات وکوہستان کے موقع پراپنی ان گناہ گارآنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔اس کے ساتھ سیلاب اورطغیانی سے بچاؤکے لئے ہمارے اقدامات بھی آٹے میں نمک کے برابرہے۔تجاوزات کے خلاف آپریشن اورکارروائی کے اعلان تو ہردورمیں ہوتے رہتے ہیں مگرسچ یہ ہے کہ ایبٹ آبادسمیت صوبے کے اکثرشہروں میں آج بھی نکاسی آب کاکوئی خاص نظام موجودنہیں۔اول تونکاسی آب کے لئے کوئی نظام نہیں۔جہاں نکاسی کے لئے غلطی سے کہیں کوئی ندی نالہ چھوڑاگیاہو اس پربھی لوگوں نے اس قدرتجاوزات قائم کی ہوتی ہیں کہ اس جگہ ندی نالے کانام ونشان ہی نظرنہیں آتا۔ہم ایبٹ آبادمیں جس جگہ رہتے ہیں یہاں محلے اورکالونی کے کنارے نکاسی آب کاایک نالہ ہے۔پہلے اس نالے پرلوگوں نے اس قدرتجاوزات قائم کردی تھیں کہ نالے کاوجودہی مٹ گیاتھا۔اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ہمارے بھائیوں جیسے دوست اسامہ وڑائچ شہیدکوجواس وقت ایبٹ آبادکے اسسٹنٹ کمشنرتھے اورپھر ڈپٹی کمشنرچترال بننے کے کچھ عرصہ بعدحویلیاں طیارہ حادثے میں شہیدہوگئے تھے۔ اس نے ہماری درخواست پراس نالے سے نہ صرف ہرقسم کی تجاوزات ختم کیں بلکہ اس نالے کواس نے پختہ اورکشادہ بھی کیا۔اس کالونی اورعلاقے کے مکین گواہ ہے کہ پھرکئی سال تک مسلسل اورطوفانی بارش سے بھی کبھی لوگوں کے گھروں میں پانی نہیں آیاورنہ اس سے پہلے جب بھی بارش ہوتی تو پانی فوراًلوگوں کے گھروں میں داخل ہوجاتاتھا۔اب پھرسے جب لوگوں نے اس نالے کودوبارہ کچرہ کنڈی بنادیاہے تب سے اس نالے کارخ ایک مرتبہ پھرگھروں کی طرف مڑگیاہے۔اس باربھی نالے سے گھروں اورگلیوں میں اتناپانی آیاکہ لوگوں کولاکھوں کانقصان اٹھاناپڑا۔جب لوگ نکاسی آب کے نالوں اورگزرگاہوں کوفلتھ ڈپوبنائیں گے توپھروہاں اس طرح کے حالات اوردن تودیکھنے پڑیں گے۔ہم مانتے ہیں کہ سارے کام حکمرانوں کے کرنے کے نہیں ہوتے کچھ کام عوام کوخودبھی کرنے پڑتے ہیں لیکن نکاسی آب کے معاملے میں حکمران اورعوام دونوں ایک دوسرے سے ایک نہیں سوسوقدم آگے ہیں۔ نہ ہی حکمرانوں کو اس چیزکی کوئی پرواہ ہے اورنہ ہی عوام کواس کاکوئی ہوش اورشعور۔حکمرانوں کوسال بھرندی نالوں کاکوئی خیال نہیں ہوتااورعوام بھی سال کے بارہ مہینے یاتو ندی نالوں پرتجاوزات قائم کرتے رہتے ہیں یاپھرگھروں کاساراکچراان نالوں اورپانی کے گزرگاہوں میں پھینک کران سے فلتھ ڈپوکاکام لیتے ہیں لیکن جب آسمان میں بادل گرجنے لگتے ہیں توپھرحکمران بھی آنکھیں ملنے لگتے ہیں اورعوام بھی ہائے ہائے شروع کردیتے ہیں۔حکمران اورعوام اگریہی ہائے ہائے سیلاب آنے سے پہلے شروع کریں توہمیں بارشوں میں اس طرح کاجانی ومالی نقصان نہ اٹھاناپڑے۔ہمیں جہاں تک یادہے ملک کے کئی صوبوں میں پہلے ہرسال بھل صفائی کاکام ہوتاتھاشائدکہ کہیں اب بھی ہوپرہمارے ہاں نہ پہلے اس طرح ثواب کاکوئی کام ہوااورنہ اب ہوتاہے۔یہاں نکاسی آب کے نالے تجاوزات کے باعث مٹ چکے ہیں یاپھرکچرے اورگندگی سے بھرچکے ہیں۔جہاں پانی گزرنے کاراستہ نہ ہووہاں پھرپانی مکانوں،دکانوں اورآبادیوں میں نہیں جائے گاتوکہاں جائے گا۔طوفانی بارشوں اورسیلاب سے جنم لینے والے اس طرح کے واقعات،حادثات اورسانحات کوہم لوگ فوراً اللہ کا عذاب قرار دے کراپنے آپ کوبری الذمہ قراردے دیتے ہیں،یہ اللہ کے عذاب بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ جس طرح کے ہمارے اعمال ہیں ان کی روشنی میں عذاب والی باتیں کم وزن بھی نہیں لیکن یہ اگر اللہ کاعذاب نہ بھی ہوتب بھی یہ ہماری اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کا نتیجہ تو ہے۔جب سے ہم نے قدرت کے نظام کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیاہے تب سے ہمیں ایسے سانحات اورواقعات سے گزرناپڑرہاہے۔جن راستوں سے پانی قدرتی طور پر بہتا ہے، ہم نے وہاں گاؤں،گھر،پلازے اور ہوٹل تعمیر کر دیئے ہیں۔ آج ہاؤسنگ سوسائٹیاں اورمیاں خلیفہ برج جیسے لمبے لمبے پلازے توہرجگہ ہیں پرنکاسی آب کامعقول نظام کہیں نہیں۔یہ صرف بٹگرام،سوات،باجوڑاوربونیرنہیں ہم سب سیلاب کے نشانے پرہیں۔قدرت کے بنائے گئے نظام سے چھیڑچھاڑاگرہم نے جاری رکھی توہمارے یہ گاؤں،بستیاں،گھر،مائیں،بہنیں،بیٹیاں اوربچے اسی طرح سیلاب کے ریلوں میں تنکوں کی طرح بہتے رہیں گے۔