تحریر: شیرافضل گوجر
قدرتی آفات انسانی تاریخ کے وہ ابواب ہیں جو ہمیں بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ انسان اپنی تمام تر ترقی اور ٹیکنالوجی پر کنٹرول کے باوجود کائنات کی قوتوں کے سامنے کتنا بس ہے۔ زلزلہ ہو یا سیلاب، قحط ہو یا طوفان ،یہ سب واقعات اس تاریخی سچائی کو اجاگر کرتے ہیں کہ انسان کا وجود فطرت کے دھارے میں تیرتی ہوئی ایک نازک کشتی سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آفت آتی ہے تو وہ قہرکیوں بن جاتی ہے؟ کیا قدرتی آفات اپنی ذات میں قیامت ہیں یا یہ انسانی نااہلی اور ریاستی غفلت ہے جو انہیں تباہی کا استعارہ بنا دیتی ہے؟
خیبرپختونخوا کی وادیوں میں ہر سال آنے والے سیلاب اس سوال کو ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ درجنوں گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، سینکڑوں خاندان اپنے پیاروں، اپنی چھتوں مال مویشیوں،جمع پونجی اور کھیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو کر کسمپرسی میں زندگی گزارتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ ،پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے جیسے ادارے اپنی رپورٹس اور بیانات جاری کر کے مختص بجٹ جسٹیفائی کرلیتے ہیں اور محکمہ خزانہ یہ فائلیں دیکھ کر مطمئن ہو جاتا ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ متاثرہ عوام اپنے ہاتھوں سے ملبہ ہٹاتے ہیں، لاشیں نکالتے ہیں اور اپنے بکھرے ہوئے گھروں کو ازسرنو آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ منظرنامہ ہمیں محض ایک انتظامی ناکامی کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ یہ ہمارے پورے سماجی، سیاسی اور اخلاقی ڈھانچے پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ مسئلہ بھی ہے کہ انسان نے اپنی اجتماعی زندگی کو کن بنیادوں پر استوار کیا ہے اور اس کے ادارے کس مقصد کے لیے وجود میں آئے ہیں؟
قدرتی آفات: فطرت کا مکالمہ یا انسانی غفلت؟
فطرت اپنے توازن کے ساتھ چلتی ہے۔ دریاؤں کے بہاؤ میں سیلاب آنا ایک طبعی حقیقت ہے، پہاڑوں سے پانی کا اترنا ایک لازمی امر ہے۔ اگر انسان اس بہاؤ کو سمجھ کر اپنے رہائشی ڈھانچے بنائے، اگر زرعی پالیسی اس جغرافیائی حقیقت کو ملحوظ رکھ کر ترتیب دی جائے تو سیلاب محض ایک عارضی رکاوٹ ہوتا ہے، تباہی نہیں۔ لیکن جب انسان زمین کے استعمال میں لالچ، حرص،بدانتظامی اور غیر منصوبہ بندی کو اختیار کرتا ہے تو وہی پانی جو زندگی بخشتا ہے، موت کا پیغام لے آتا ہے۔
یونانی فلسفی ہیرقلٹس نے کہا تھا کہ "سب کچھ بہتا ہے”۔ دریا بہتا ہے، وقت بہتا ہے، زندگی بہتی ہے۔ لیکن یہ بہاؤ جب انسانی عقل کے بغیر ہو تو سب کچھ برباد کر دیتا ہے۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ان قدرتی آفات کو اپنی اجتماعی زندگی کے حساب سے سمجھتے اور ان کے مطابق ایک ایسا نظام تشکیل دیتے جس میں تباہی کو کم سے کم کیا جا سکتا۔
گڈ گورننس اور آفات سے بچاؤ۔
گڈ گورننس صرف یہ نہیں کہ کرپشن کم ہو یا ادارے شفاف ہوں۔اچھی طرز حکمرانی کا مطلب ہے مستقبل بینی، منصوبہ بندی اور عوامی مفاد کو مرکزی حیثیت دینا۔ جب حکومتیں آفات سے نمٹنے کے بجائے بیانات جاری کرنے پر اکتفا کریں، جب ادارے صرف کاغذی کارروائیوں،الرٹس اور رپورٹس تک محدود رہیں، تو یہ گڈ گورننس کی نفی ہے۔
سیلاب سے بچاؤ کے لیے ڈیم، حفاظتی پشتے، پانی کے زخائر کی حفاظت،ندی نالوں کی صفائی،ڈزاسٹر پرون ایریاز کی نشاندہی, بروقت انخلاء کا نظام، اور متاثرین کی فوری بحالی وہ اقدامات ہیں جو ریاستی ذمہ داری کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت آفات کو ایک وقتی واقعہ سمجھ کر ردعمل دیتی ہے،جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے انہیں پالیسی کا مستقل حصہ بناتے ہیں۔ان اقدامات کا عکس ترقیاتی بجٹ میں نظر آتا ہے۔یہی فرق اچھی طرز حکمرانی اور بدانتظامی میں ہے۔
ریاستی ادارے: کاغذی خانہ پری۔
پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کا وجود بنیادی طور پر اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا کہ کسی بھی آفت کی صورت میں فوری اور مربوط ردعمل دیا جا سکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارے ایک "فائلوں کے دراز” سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ عملی طور پر رپورٹس، اعداد و شمار،الرٹس اور پریس ریلیز ان کا اصل کام ہے، جبکہ زمینی سطح پر عوام خود اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ کرتے ہیں۔
یہ ادارہ جاتی ناکامی محض انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ریاستی فلسفے کی ناکامی بھی ہے۔ اگر ریاست کا وجود شہریوں کی حفاظت اور بہبود کے لیے ہے، تو ایسے میں جب شہری اپنی ہی لاشیں کندھوں پر اٹھا رہے ہوں تو بیورو کریسی کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قدرتی آفات میں پانی پر تیرتی شہریوں کی لاشوں کے بیچ کہیں ایک لاش نظام کی بھی ہوتی ہے اور ایسے حالات میں انسانوں کی بے بسی سے ریاستی وجود کے جواز پر سوال اٹھنا ناگزیر ہو جاتا ہے ہے۔
سول سوسائٹی اور NGOs کا کردار۔
ریاستی اداروں کی ناکامی کے بعد سب سے پہلے غیر سرکاری تنظیمیں اور این جی اوز منظر پر آتی ہیں۔ یہ تنظیمیں متاثرین کو خوراک، ادویات اور خیمے فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کردار اہم ہے لیکن محدود ہے۔ این جی اوز فوری ریلیف تو دیتی ہیں لیکن بحالی اور پالیسی سازی ان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
فلسفیانہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک ریاست کو اپنی بنیادی ذمہ داریاں این جی اوز پر چھوڑ دینی چاہئیں؟ اگر ریاست کا وجود ہی شہریوں کی فلاح کے لیے ہے تو پھر یہ ذمہ داری غیر ریاستی اداروں پر منتقل کیوں ہو گئی؟ این جی اوز کا کردار معاون ہونا چاہیے، متبادل نہیں لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں وہ متبادل بن جاتی ہیں کیونکہ ریاست غائب ہے۔یہاں ایک کچھ عرصہ سے ایک نئی روایت نے جنم لیا ہے کہ اب ریاستی ادارے/سرکاری محکمے مختلف رفاعی اداروں اور این جی اوز NGOs سے شہریوں کی سہولت کے لیے معاونت کا کام لینے اور ان کے کام کے معیار پر نظر رکھنے کے بجائے رجسٹریشن اور اجازت ناموں کی قانونی مجبوری کی آڑھ لیکر بلیک میلنگ،بھتہ خوری اور لوٹ مار کے زریعے تنگ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں فلاحی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
شہریوں کی ذمہ داریاں
یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ریاست یا این جی اوز پر انحصار کرنا کافی نہیں۔ شہریوں کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ گاؤں اور محلوں کی سطح پر مقامی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیٹیاں بنانا، خطرناک جگہوں پر تعمیرات سے اجتناب کرنا،ندی نالوں میں تجاوزات کی نشاندہی کرنا، سیلابی راستوں کو صاف رکھنا اور شجرکاری کرنا یہ سب اقدامات عوام کو اپنی سطح پر کرنے چاہئیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اجتماعی شعور کمزور ہے، ہم انتظار کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا آ کر ہماری مدد کرے۔ یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ فلسفہ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ انسان اپنی تقدیر کا خود ذمہ دار ہے۔ اجتماعی ذمہ داری کا شعور پیدا کیے بغیر نہ ریاست کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ سماج۔
قدرتی آفات صرف گھروں کو نہیں اور کھیتوں کو نہیں ًڈبوتیں بلکہ انسانوں کی نفسیات کو بھی توڑ دیتی ہیں۔ سیلاب کے بعد بے گھر ہونے والے خاندانوں میں محرومی، غم اور بے یقینی کے احساسات جنم لیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے، عورتیں عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہیں، اور مرد مزدوری کے لیے دربدر پھرنے لگتے ہیں۔
یہ سب کچھ ہمیں بتاتا ہے کہ آفات محض طبعی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی بھی ہیں۔ اس پہلو پر بھی ریاست اور سماج کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ ہمارے ہیجمانک ڈسکورس کا حصہ نہیں بن پاتا۔
آفات یا اداروں کی غفلت؟
آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا سیلاب ہماری تقدیر ہیں؟ نہیں۔ سیلاب ایک فطری عمل ہے، لیکن اسے قیامت میں بدلنا ہماری اجتماعی نااہلی ہے۔ گڈ گورننس کے اصولوں پر چلنے والی ریاستیں آفات کو بڑے نقصان کا زریعہ بننے سے روک کر معمولی نقصان تک محدود رکھتی ہیں، جبکہ ناکام ریاستیں انہیں تباہی میں بدل دیتی ہیں۔ این جی اوز کا کردار معاون ہے لیکن ان پر انحصار تباہی ہے۔ شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں قبول کرنا ہوں گی۔
فلسفیانہ سطح پر یہ معاملہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان اور ریاست کا رشتہ کیا ہے۔ اگر ریاست صرف بیانات اور رپورٹس کی مشین بن جائے تو پھر عوام کو اپنی تقدیر خود تراشنا ہو گی۔ لیکن اگر ریاست اپنی اصل ذمہ داری قبول کرے، اگر سماج اپنی اجتماعی ذمہ داری کو سمجھے، اور اگر شہری اپنی انفرادی سطح پر فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں، تو آفات قیامت نہیں بلکہ ایک عارضی آزمائش رہیں گی۔